مزاحمتی مریم نواز تخت پنجاب سنبھالنے میں کیسے کامیاب ہونگی؟

پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے پنجاب میں الیکشن کے نتیجے میں وزیر اعلیٰ بننے والی نواز شریف کی بیٹی مریم نواز کو مضبوط اپوزیشن کا مقابلہ کرنے کے لیے طاقتور حلقوں کی مدد درکار ہو گی۔ تاہم دوسری جانب کئی ماہرین یہ سوال بھی پوچھ رہے ہیں کہ آیا نئے ہائبرڈ نظام میں مریم نواز کو ‘عثمان بزدار‘ بن کر حکومت کرنا پڑے گی؟ اس سوال کے جواب میں مختلف لوگوں کی آراء مختلف ہو سکتی ہیں لیکن اس بات پر بہت سے تجزیہ کار متفق ہیں کہ مریم نواز کے لیے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کوئی پھولوں کی سیج ثابت نہیں ہو گی۔

پنجاب اسمبلی میں کم از کم مطلوبہ تعداد سے کہیں زیادہ ارکان کی حمایت ملنے کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن کی مرکزی رہنما مریم نواز شریف وزیر اعلیٰ بننے میں کامیاب ہو گئی ہیں۔مریم نواز پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی تاریخ میں پہلی خاتون سیاست دان ہوں گی، جو وزیر اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوں گی۔ وہ اس منصب پر فائز ہونے والی شریف خاندان کی چوتھی شخصیت ہیں۔ ان سے پہلے ان کے والد میاں محمد نواز شریف، ان کے چچا میاں شہباز شریف اور ان کے کزن میاں حمزہ شہباز شریف بھی مختلف ادوار میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں۔

مریم نواز ایک ایسے وقت پر پنجاب میں وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھال رہی ہیں، جب ان کے چچا شہباز شریف ایک بار پھر ملکی وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے جا رہے ہیں۔ مریم نواز کو خاندانی اور موروثی سیاست کے حوالے سے تنقید کا سامنا بھی ہے۔

خیال رہے کہ مریم نواز شریف کا تعلق لاہور کے ایک صنعتی کاروباری گھرانے سے ہے۔ ان کی شادی خیبر پختونخوا کے علاقے مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے ایک سابق فوجی افسر کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر سے ہوئی اور ان کے تین بچے ہیں۔ مریم نواز کو اچھا لباس زیب تن کرنے کا شوق ہے اور خواتین کی ایک بڑی تعداد انہیں ان کی خوش لباسی کی وجہ سے بھی جانتی ہے۔

مریم نواز کو ان کی پارٹی میں کئی سینئر شخصیات کی موجودگی میں پاکستان مسلم لیگ ن کی سینئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر بنایا گیا۔ کئی سیاسی تجزیہ کار چوہدری نثار اور شاہد خاقان عباسی سمیت ن لیگ کے کئی رہنماؤں کی پارٹی سے دوری کی ایک وجہ مریم نواز شریف کو بھی قرار دیتے رہے ہیں۔

2013 میں جب نواز شریف ملکی وزیر اعظم تھے، تو مریم نواز وزیر اعظم کے یوتھ پروگرام کی سربراہ بھی رہیں لیکن پھر چند مہینوں بعد ہی انہیں ایک عدالتی کارروائی کے بعد اس عہدے سے مستعفی ہونا پڑا تھا۔ وہ ایک مقدمے میں جیل بھی جا چکی ہیں اور پانامہ پیپرز کے منظر عام پر آنے کے دنوں میں بھی ان کا نام ملکی اخبارات کی زینت بنتا رہا تھا۔

سینئر تجزیہ کار جاوید فاروقی نے اس سوال کے جواب میں کہ مریم نواز پنجاب کی کیسی وزیر اعلیٰ ثابت ہوں گی، ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس سوال کا حتمی جواب جاننے کے لیے کچھ انتظار کرنا لازمی ہے۔انہوں نے کہا، ”ان کے کریڈٹ پر سیاسی جدوجہد اور چند سیاسی کامیابیاں تو ہیں۔ لیکن ان کے پاس کوئی خاص انتظامی تجربہ نہیں ہے۔ وہ شہباز شریف کی طرح ایوان صنعت و تجارت کی سیاست کا حصہ بھی نہیں رہیں۔ انہیں کاروباری دنیا میں بھی سرگرم نہیں دیکھا گیا۔ مریم نواز کو اپنی کابینہ میں رانا ثنا اللہ اور ندیم کامران جیسے پرانے اور تجربہ کار لیگی رہنماؤں کا ساتھ بھی میسر نہیں ہو گا۔ انہیں ایک مضبوط حزب اختلاف کا سامنا ہو گا۔ ان کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار اس بات پر بھی ہو گا کہ وہ کس طرح کے لوگ اپنی کابینہ اور کس طرح کے اعلیٰ افسر سرکاری عہدوں پر لاتی ہیں۔‘‘

جاوید فاروقی کے مطابق ‘مریم نواز کی خوش قسمتی ہے کہ ان کو بیوروکریسی میں مسلم لیگ ن کا ایک وفادار دھڑا دستیاب ہو گا، جو ان کو مشکلات سے بچانے میں معاون ہو گا۔ اس کے علاوہ انہیں نواز شریف کی رہنمائی اور گہری مشاورت بھی میسر ہو گی۔ لیکن مریم نواز ایک سخت گیر خاتون ہیں، جو اپنے مخالفین کے ساتھ مفاہمت یا مکالمے کی زیادہ عادی نہیں ہیں۔ یہ چیز ان کو ایک ختم نہ ہونے والی محاذ آرائی میں الجھا سکتی ہے۔‘‘

دوسری جانب سینئر صحافی سجاد میر سمجھتے ہیں کہ مریم نواز نے اپنے والد کو پاکستان لانے، ہزارہا شہریوں کو سیاسی جلسوں میں اپنی طرف متوجہ کرنے، ووٹروں کو ترغیب دلانے اور متحرک کرنے کے معاملے میں بھی کئی بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ان کے مطابق مریم نواز کے وزیر اعلیٰ بننے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ نواز شریف کی ”سیاسی میراث کی اصل وارث‘‘ اب وہی ہوں گی نواز شریف کا ”پولیٹیکل کیپیٹل‘‘ انہیں ہی سنبھالنا ہوگا۔

Back to top button