کیا شہباز حکومت خطرے میں ہےیا سارا بحران ٹوپی ڈرامہ ہے؟

عام انتخابات کے بعد بیساکھیوں کے سہارے تشکیل پانے والی شہباز حکومت اپنے قیام کے بعد سے ہی گرم پانیوں میں نظر آرہی ہے اگرچہ ابھی اِس کو بنے تقریباً ساڑھے تین مہینے ہوئے ہیں لیکن حکومتی اتحاد ابھی سے ڈگمگانا شروع ہوگیا ہے۔ جہاں ایک طرف بڑی حکومتی اتحادی پیپلز پارٹی نے اپنے مطالبات کے حق میں آواز بلند کرتے ہوئے حکومتی اقدامات پر تحفظات کا اظہار کر رہی ہے وہیں دوسری جانب دوسری اتحادی جماعت ایم کیو ایم نے بھی وفاقی بجٹ کو عوام دشمن قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔ تاہم سوال پیدا ہوتا ہےکہ ایسا کیا ہوا کہ اِتنے کم عرصے میں ہی حکومت کا اتحاد مشکل کا شکار ہونے لگا ہے؟

مبصرین کے مطابق معاملے کی سنگینی کو مدنظر رکھتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف اتحادیوں کے تحفظات دور کرنے کیلئے خود میدان میں اتر چکے ہیں۔ وزیر اعظم نے پہلے مولانا فضل الرحمان کو منانے کی کوشش کی اور اب بلاول بھٹو کے بجٹ پر تحفظات دور کرنے کیلئے کوشاںدکھائی دیتے ہیں۔ مبصرین کے مطابق 20جون کو پیپلزپارٹی اور نون لیگی وفود کی اہم ملاقات بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ دوران ملاقات بلاول بھٹو نے وفاقی بجٹ پر اعتماد میں نہ لینے کا معاملہ وزیراعظم کے سامنے رکھ دیا، پیپلز پارٹی کو وفاقی بجٹ سے متعلق اعتماد میں نہ لینے پر بلاول بھٹو نے تحفظات کا اظہار کیا۔بلاول نے کہا پیپلز پارٹی نے معاہدے کے تحت حکومت کی حمایت کی، حکومت نے پیپلز پارٹی سے کیے معاہدے پر عملدرآمد نہیں کیا، پنجاب حکومت پیپلز پارٹی کے راستوں کو مسدود کر رہی ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے بلاول بھٹو کے بیشتر نکات سے اتفاق کرتے ہوئے معاملات کے حل کیلئے کمیٹیاں بنا دیں، پیپلز پارٹی اور حکومت کی کمیٹیاں کل ملاقات کرکے معاملات آگے بڑھائیں گی۔باوثوق ذرائع کے مطابق چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے وزیراعظم سے گلے شکوے کیے اور چارٹر آف ڈیمانڈ بھی تھما دیا۔بلاول نے سندھ کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے مزید فنڈز مختص کرنے کے ساتھ ساتھ وفاق اور پنجاب کے بجٹ پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔پیپلزپارٹی نے جنوبی پنجاب میں انتظامی کنٹرول کا مطالبہ کیا اور حکومت کو یاد دہانی کرائی کہ انہوں نے پی ایس ڈی پی اور بجٹ کے حوالے سے وعدے پورے نہیں کیے۔اتحادی جماعت نے وزیر اعظم کو بجٹ کے حوالے سے بھی اپنے خدشات سے آگاہ کیا۔وزیراعظم نے بلاول بھٹو کو تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ بجٹ پر پیپلز پارٹی کے خدشات دور کیے جائیں گے اور پنجاب اور سندھ سے متعلق مطالبات بھی تسلیم کیے جائیں گے۔ ذرائع کے مطابقپاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے درمیان مذاکرات کامیاب ہو گئے ہیں جہاں بلاول بھٹو زرداری نے وزیر اعظم شہباز سے ملاقات میں بجٹ منظور کرانے کی یقین دہانی کرا دی۔

پی ٹی آئی رہنماؤں شعیب شاہین اور اسد قیصر کی مختلف مقدمات میں ضمانت قبل از گرفتاری منظور

ذرائع کے مطابق پیپلزپارٹی کو اپنی اتحادی جماعت مسلم لیگ ن سے یہ شکوہ ہے کہ اہم معاملات میں اُس سے کوئی مشاورت نہیں کی جاتی اب ایک طرف سیاسی حلقوں میں یہ چہ مہ گوئیاں ہورہی ہیں کہ پیپلزپارٹی ن لیگ کو دباؤ میں لانا چاہتی ہے ۔تاکہ وہ یہ تاثر دے سکے کہ پیپلزپارٹی کے بغیر وفاق میں حکومت نہیں چل سکتی ۔ن لیگ کو بھی اِس بات کا ادراک ہے کہ پیپلزپارٹی حکومت کی اہم اتحادی جماعت ہے ۔یہی وجہ ہے کہ لیگی رہنما رانا ثنا اللہ اِس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ بجٹ میں پیپلزپارٹی کے ساتھ مشاورت میں کمی رہ گئی تھی ۔جس کو ہم اب دور کریں گے اور پیپلزپارٹی سے بجٹ پر مشاورت کریں گے۔
اب دلچسپ بات یہ ہے کہ ن لیگ بھی یہ بات اچھے سے جانتی ہے کہ قومی اسمبلی میں بحث کے بعد بجٹ قومی اسمبلی سے 30 جون کو منظور ہونا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ن لیگ پیپلزپارٹی کے ساتھ اِس معاملے پر لچک کا مظاہرہ کرتی نظر آرہی ہے ۔لیکن پیپلزپارٹی کی رہنما شرمیلا فاروقی ایک طرح سے ن لیگ کو خبردار کرچکی ہیں کہ اگر پیپلزپارٹی نے ووٹ نہیں دیا تو بجٹ پاس نہیں ہوگا۔ جس کا مطلب یہ ہوگا کہ حکومت ختم ہوجائے گی۔
اب عام تاثر یہ جارہا ہے کہ پیپلزپارٹی پنجاب میں ن لیگ کی حکومت سے اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کر رہی ہے ۔پنجاب میں کسی حد تک وزیر اعلی پنجاب مریم نواز نے مہنگائی میں کمی کیلئے اقدامات کئے آٹا ،روٹی،اور بنیادی ضرورت کی اشیاء کی قیمتوں میں کمی ہوئی ہے ۔عید قرباں پر صاف ستھرائی کے مناسب انتظامات کئے گئے ہیں جنہیں سراہا جا رہا ہے ۔اور پیپلزپارٹی کو پنجاب میں ن لیگ کی بہتر کارکردگی کو لے کر کچھ خطرہ محسوس ہورہا ہےاور یہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی پنجاب میں اسپیس دینے کی بات کرتی ہے۔اور یوسف رضا گیلانی بھی واضح الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ بلاول بھٹو نے ن لیگ سے یہی مطالبہ کیا ہے کہ ہمارے ساتھ جو حکومت بننے کے وقت معاہدہ طے ہوا تھا اُس معاہدے میں پیپلزپارٹی کو پنجاب میں اسپیس دینا بھی شامل تھا ۔
اب پیپلزپارٹی کے مطالبات سامنے ہیں ۔پیپلزپارٹی کو پنجاب میں اسپیس چاہئے اور بجٹ پر وہ اپنے تحفظات کو بھی دور کرنے کی خواہاں ہے۔

Back to top button