کون کون سے چیلنجز شہباز حکومت کی بنیادیں ہلانے والے ہیں؟

کون کون سے چیلنجز شہباز حکومت کی بنیادیں ہلانے والے ہیں؟پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر آئندہ چند ماہ میں تین عوامل اثر انداز ہوتے دکھائی دیتے ہیں، ان میں سے ایک معاشی، ایک عدالتی جبکہ ایک عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلی ہے۔

سب سے پہلے معاشی معاملے کی بات کریں تو آئندہ چند روز میں وفاقی بجٹ منظور کر لیا جائے گا اور یکم جولائی سے نئے بجٹ کا باقاعدہ اطلاق ہوگا جس کے ساتھ ہی 3800 ارب روپے کے اضافی ٹیکسز کا بوجھ عملی طور پر عوام پر پڑے گا، آئی ایم ایف کی شرائط پر تیار ہونے والے اس بجٹ کے منظور ہونے کے بعد پاکستان کا مڈل کلاس طبقہ ٹیکسوں کے مزید بوجھ تلے پس کر رہ جائے گا۔ کیونکہ اس بجٹ کو ٹیکسوں کا بجٹ کہا جا رہا ہے یہ ٹیکسز عام آدمی کی زندگی اجیرن بنا دیں گے۔ جہاں ایک طرف پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں لیوی کو 60 روپے سے بڑھا کر 80 روپے کرنے کا فیصلہ آنے والے دنوں میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرے گا جس سے ملک میں مہنگائی بڑھنے کا خدشہ ہے، پٹرولیم لیوی بڑھنے سے عالمی مارکیٹ میں پٹرول کی گرتی ہوئی قیمتوں کے اثرات بھی عام آدمی تک نہیں پہنچ سکیں گے

دوسری جانب نیپرا نے حکومتی درخواست پر بجلی کے بنیادی ٹیرف میں پانچ روپے بہتر پیسے فی یونٹ اضافے کی منظوری دے دی ہے، بجلی کی فی یونٹ قیمت میں اضافہ پہلے سے مہنگی بجلی کو مزید مہنگا کر دے گا،بجٹ میں تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں کی بھرمار کر دی گئی ہے۔ نجی شعبے کے ملازمین کوصرف ٹیکس میں اضافے کی صورت میں تنخواہ میں کٹوتی ملی ہے اور ان کی قوتِ خرید مزید کم ہونے جا رہی ہے۔

تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے نان فائلرز پر ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ ریٹیلرز یہ اضافی شرح بھی صارفین کو منتقل کریں گے اور عام آدمی کو اس ٹیکس کیلئے اضافی رقم ادا کرنا پڑے گی، اس کے علاوہ جنرل سٹورز کی پیکڈ آئٹمز پر بھی ٹیکس چھوٹ ختم کر دی گئی ہے، یوں مہنگی توانائی اور ٹیکسوں کی بھرمار کے باعث مہنگائی کا ایک نیا طوفان آتا دکھائی دے رہا ہے۔

حکومتی ناقدین کا خیال ہے کہ اس صورتحال میں امکانات موجود ہیں کہ اگست کے بعد حکومت کو عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، سابق وزیر اعظم اور پی ٹی آئی کے بانی عمران خان بھی اگست میں اپنی پارٹی کو احتجاج کی کال دینے کا ارادہ رکھتے ہیں اور وہ حکومت پر دباؤ بڑھانے کیلئے خیبر پختونخوا حکومت کے ذریعے لوگوں کو سڑکوں پر لانے کی حکمت عملی ترتیب دے رہے ہیں، ایسے میں مہنگائی کی صورتحال تحریک انصاف کی احتجاجی تحریک کو فائدہ پہنچا سکتی ہے۔

سیاسی منظر نامے پر اثر انداز ہونے والا دوسرا انتہائی اہم فیکٹر عدالتی محاذ ہے جہاں تیس کے لگ بھگ کیسز ایسے ہیں جن کے فیصلے حکومت کے سیاسی مستقبل پر اثر انداز ہو سکتے ہیں، سب سے اہم آئینی کیس سُنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق ہے جسے سپریم کورٹ آف پاکستان کا 13 رکنی بنچ سُن رہا ہے، اس کیس میں یہ طے ہونا ہے کہ سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں کو ملنی ہیں یا نہیں؟

وفاقی وزیر داخلہ کی چینی شہریوں کے سکیورٹی پلان پر عمل درآمد کی ہدایت

اگر یہ نشستیں حکمران اتحاد کو نہیں ملتیں تو ان کا دو تہائی اکثریت کا خواب چکنا چور ہو جائے گا اور حکومت آئینی ترامیم کرنے کی طاقت حاصل نہیں کر پائے گی، دوسری جانب حکومت کیلئے بانی پی ٹی آئی اور ان کا بیانیہ مسلسل درد سر بنا ہوا ہے۔ آنے والے مہینوں میں حکومت کیلئے عمران خان کو جیل میں لمبے عرصے کیلئے رکھنا کسی چیلنج سے کم نہیں ہو گا کیونکہ اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اسلام آباد کو بانی پی ٹی آئی کی عدت کیس میں سزا معطلی کی درخواست پر دس روز میں فیصلہ کرنے کی ہدایت دی گئی ہے اور یہی واحد کیس ہے جس میں بانی پی ٹی آئی گرفتار ہیں، کیونکہ کچھ عرصہ قبل تک بانی پی ٹی آئی پانچ کیسز میں گرفتار تھے، سب سے اہم اور تگڑے کیس، سائفر میں برَی ہو چکے ہیں، توشہ خانہ نیب ریفرنس اور توشہ خانہ فوجداری کیسز میں بھی سزائیں معطل ہو چکی ہیں۔القادر ٹرسٹ کیس میں ان کی ضمانت ہو چکی ہے البتہ عدت کیس میں رہائی کی صورت میں انتظامیہ نے ان کے خلاف دو نئے کیسز تیار کر رکھے ہیں، بانی پی ٹی آئی فوری طور پر تو باہر آتے دکھائی نہیں دے رہے مگر ان کے خلاف مقدمات میں ایک کے بعد ایک ریلیف حکومت کیلئے مشکلات ضرور پیدا کرتا جا رہا ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ میں دو ججز کے خلاف مہم سے متعلق توہین عدالت کی کارروائیاں بھی ان دنوں زیر التوا ہیں، الیکشن ٹریبونل سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی پٹیشن بھی سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے، اس کیس میں یہ طے ہونا ہے کہ الیکشن ٹریبونل میں ججز کی تقرری الیکشن کمیشن کا اختیار ہے یا ہائیکورٹس کا جبکہ الیکشن ٹریبونلز سے متعلق آرڈیننس کا معاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ اور لاہور ہائیکورٹ میں زیر التوا ہے، جس سے متعلق فیصلہ انتخابی دھاندلی سے متعلق کیسز کے مستقبل پر اثر انداز ہوگا، عدالتی محاذ پر ان آئینی اور قانونی معاملات کا سامنا حکومت کیلئے کسی چیلنج سے کم نہیں۔

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف ایک بار پھر امید لگائے بیٹھی ہے کہ امریکا میں آنے والے صدارتی انتخابات کے نتائج پاکستانی سیاست پر اثر انداز ہوں گے، ان کے مطابق صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ اگر صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرتے ہیں تو انہیں نئی امریکی انتظامیہ سے مدد مل سکتی ہے، مگر اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھی شخصیات یہ سمجھتی ہیں کہ امریکی انتخابات کے نتائج کچھ بھی ہوں اس کے پاکستان کی موجودہ صورتحال پر اثرات نہیں پڑیں گے، ایسا ممکن نظر نہیں آتا کہ ٹرمپ کی جیت کی صورت میں وہ بانی پی ٹی آئی یا ان کی جماعت کے ریلیف کیلئے پاکستانی انتظامیہ پر اثر انداز ہوں۔

Back to top button