کیا پاکستان افغانستان میں چھپے طالبان کے خلاف ایکشن کا رسک لے گا؟

وزیر دفاع خواجہ آصف کی جانب سے اس بیان کے بعد کہ پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے طالبان کے خلاف سرحد پار افغانستان میں حملے کیے جا سکتے ہیں، یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا پاکستان ایسی کاروائی کرنے کا رسک لے گا؟

حکومت پاکستان کی جانب سے حال ہی سرحد پار افغانستان کے اندر کارروائیوں کا عندیہ دیے جانے کے بعد ایک جانب جہاں افغانستان کی طالبان حکومت اسے ایک غیر دانشمندانہ بیان قرار دے رہی ہے وہیں شہباز حکومت کو عمران خان کی تحریک انصاف کی جانب سے بھی مخالفت کا سامنا ہے۔ پاکستان کا موقف ہے کہ شدت پسندی کی لہر میں اضافے کی وجہ کالعدم تنظیم تحریک طالبان کی جانب سے افغانستان کی سرزمین کا استعمال ہے جسے روکنے میں افغان حکومت ناکام رہی ہے۔ پاکستان کا موقف یے کہ سرحد پار سے شدت پسند سکیورٹی فورسز، چینی اور پاکستانی شہریوں کے خلاف حملے کرتے ہیں۔ پاکستانی حکام کے مطابق انھوں نے بار ہا افغانستان کو ان گروہوں کا نشاندہی کی اور ثبوت دیے مگر طالبان حکومت پاکستان کے تحفظات دور نہ کر سکی اور نتیجتاً یہ گروہ زیادہ آزادی سے افغانستان سے پاکستان کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ ماضی میں پاکستان کی جانب سے افغانستان کے اندر کارروائی کی جا چکی ہے۔ رواں سال مارچ میں افغان طالبان نے کہا تھا کہ پاکستانی طیاروں نے افغانستان کی حدود میں پکتیکا اور خوست کے علاقوں میں بمباری کی جس کے بعد پاکستانی دفتر خارجہ نے بتایا کہ اس آپریشن میں حافظ گل بہادر گروپ سے تعلق رکھنے والے دہشتگرد ہدف تھے۔

آپریشن عزمِ استحکام: پی ٹی آئی حکومتی  اے پی سی میں شرکت کرے گی: عمران خان

ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان کی حکومت نے افغانستان میں عسکری کارروائی کا عندیہ دیا؟ بی بی سی اردو نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ وزیر دفاع خواجہ آصف نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ’آپریشن عزمِ استحکام کے تحت اگر ضرورت محسوس ہوئی تو افغانستان میں موجود تحریکِ طالبان پاکستان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔‘ انھوں نے بعد میں ماضی میں ہونے والی ایسی کارروائیوں کا تذکرہ بھی کیا۔ بی بی سی کو دیے جانے والے انٹرویو کے دوران خواجہ آصف نے کہا تھا کہ ’پاکستان افغانستان میں طالبان کے ٹھکانوں کے خلاف کارروائی جاری رکھے گا۔‘ انھوں نے کہا کہ ’ہم نے افغانستان کی سرحد کے اندر پہلے بھی کارروائیاں کی ہیں کیونکہ ان کی سرزمین سے لوگ آ کر یہاں پاکستان میں کارروائیاں کر رہے ہیں۔ ہم نے انھیں جواب میں کیک، پیسٹری تو نہیں کھلانی ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ایسی کارروائیوں میں حملہ آوروں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا تھا اور پاکستان مستقبل میں بھی یہ عمل جاری رکھے گا۔

واضح رہے کہ مارچ میں ہونے والے حملے پر افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں کہا تھا کہ پاکستان کے فضائی حملے میں پانچ خواتین اور تین بچے ہلاک ہوئے۔ اس سوال پر کہ عالمی سرحدی قوانین کے مطابق کیا پاکستان افغان حکومت کو ایسی کسی بھی کارروائی سے پہلے اطلاع دیتا ہے، پاکستانی وزیر دفاع نے کہا کہ ’ایسا نہیں کیا جاتا، کیونکہ اس سے سرپرائز کا عنصر ختم ہو جائے گا۔ ہم انھیں یہ نہیں بتا سکتے کہ ہم آ رہے ہیں، آپ تیاری کر لیں۔‘

افغانستان میں طالبان حکومت نے پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف کے افغانستان کے اندر کارروائی کے بیان پر ردِعمل دیتے ہوئے اسے غیر دانشمندانہ قرار دیا۔ افغان وزارتِ دفاع کا کہنا تھا کہ پاکستانی وزیر کا افغانستان کی قومی خود مختاری کی ممکنہ خلاف ورزی سے متعلق بیان ایک غیر دانشمندانہ عمل ہے جو بد اعتمادی پیدا کرسکتا ہے اور یہ کسی کے حق میں نہیں۔

افغانستان کی وزارتِ دفاع کا کہنا ہے کہ پاکستان کی قیادت کو چاہیے کہ کسی کو بھی حساس معاملات پر اس طرح کے غیر سنجیدہ بیانات دینے کی اجازت نہ دے۔

دوسری جانب پاکستان میں خواجہ آصف کے بیان پر شدید تنقید ہو رہی ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کے مولانا فضل الرحمان اور تحریک انصاف نے اس بیان کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن نے پشاور میں ایک قبائلی جرگے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد کابل کے بارے میں اپنا فیصلہ غصے اور جذبات کی بنیاد پر کر رہا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ریاستوں کے درمیان مسائل جلد بازی یا دھمکیوں سے حل نہیں کیے جا سکتے کیونکہ یہ دوطرفہ تعلقات میں مزید بگاڑ کا باعث بنے گا۔

وزیر دفاع کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے تحریک انصاف نے وزیر اعظم شہباز شریف سے فوری طور پر قوم کو اعتماد میں لینے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ تحریک انصاف کی رکن قومی اسمبلی زرتاج گل نے پارلیمنٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا کے بجائے افغانستان کو دشمن سمجھا جا رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کو برادر ہمسایہ ملک کے ساتھ تصادم کی جانب نہ دھکیلا جائے۔

افغان تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان اگر یہ سمجھتا ہے کہ افغان طالبان حکومت تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں پر اتنا اثر رسوخ رکھتی ہے کہ انہیں کاروائیوں سے روک سکے تو یہ سوچ غلط ہے۔ طالبان حکومت ٹی ٹی پی پر اتنا کنٹرول نہیں رکھتی کہ ان سے سرینڈر کروا سکیں اور پاکستان کو اس کا ادراک ہونا چاہیے کیونکہ ماضی میں امریکہ بھی پاکستان سے ایسے غیر حقیقی مطالبے کرتے آیا ہے کہ افغان طالبان کو سرینڈر کرا دیں جبکہ ‘انفلوئنس’ اور روابط کے باوجود پاکستان ایسا نہیں کر سکتا تھا۔‘ دوسری جانب سکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار بریگیڈیئر ریٹائرڈ محمد سعد کا کہنا یے کہ پاکستان کا دفاع اسکی اپنی ذمہ داری ہے، اور ایسے حالات میں کسی دوسرے ملک پر انحصار کرنا ممکن نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’پاکستان کے سامنے اس وقت سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اپنا دفاع کرنا ہے یا دوسروں کے احساسات کا خیال رکھنا ہے۔‘ ان کے مطابق عمران خان کے دور حکومت میں نہ صرف افغانستان سے بغیر کسی واضح شرائط کے دہشتگردوں کو پاکستان میں لا کر بسایا گیا بلکہ جیلوں کے تالے بھی کھولے گئے اور انھیں آزاد کیا گیا۔ یہ ایک طے شدہ اصول ہے کہ کبھی دہشتگردوں سے بات چیت نہیں ہوتی۔‘ ان کی رائے میں اگر کبھی ایسا کرنا بھی ہو تو پہلے یہ شرط عائد کی جاتی ہے کہ ایسے گروہ اور افراد سر عام اپنے طرز عمل سے دستبرداری کا اعلان کریں۔

 انہوں نے کہا کہ چونکہ ٹی ٹی پی کے دہشت گرد پاکستان میں دہشت کاروائیوں سے باز نہیں ارہے لہذا پاکستان ممکنہ طور پر ہر ایسی کوشش کرے گا کہ جس سے وہ ٹی ٹی پی کو ختم کر سکے۔ یوں ٹی ٹی پی کے لیے محدود نیٹ ورکس کے ساتھ پاکستان کے اندر حملے کرنا مشکل ہو جائے گا۔

Back to top button