پکی دوستی کے دعویدار چین نے پاکستان کو مشکل میں کیسے ڈالا ؟

پاکستان کیساتھ ہمالیہ سے اونچی دوستی کے دعوے دار ہمسایہ ملک چین نے پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے اندرونی استحکام کا مطالبہ کر کے حکومت پاکستان کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی فوج تحریک طالبان اور اس سے وابستہ دہشت گردوں کے خلاف ایک لمبی جنگ لڑ رہی ہے جس میں ہزاروں فوجیوں کے علاوہ سویلینز بھی اپنی جانیں گوا چکے ہیں لیکن دہشت گردوں کی کمر اس لیے نہیں ٹوٹ پائی کہ ہمسایہ ملک افغانستان میں بھی طالبان حکومت قائم کر چکے ہیں۔ پاکستان میں چینی شہریوں اور تنصیبات پر حملوں میں بھی تحریک طالبان کے وہ دہشتگرد نمایاں ہیں جو افغان سرحد پار کر کے اتے ہیں، اور یہ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستانی اور افغانی طالبان کے مشترکہ مفادات ہیں۔

چینی حکام کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف نے دہشتگردی کے خلاف ’آپریشن عزم استحکام‘ کی منظوری دے دی ہے تاکہ ایک بڑا فوجی آپریشن شروع کیا جا سکے۔ لیکن حیران کن طور پر عمران خان کی تحریک انصاف نے اس اپریشن کی مخالفت شروع کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں ہنگامہ کھڑا کر دیا ہے۔ چند روز پہلے وزیراعظم کی زیرِ صدارت نیشنل ایکشن پلان پر مرکزی ایپکس کمیٹی کے اجلاس کے بعد اعلان کیا گیا کہ ’پاکستان کی بقا کے لیے شدت پسندی اور دہشتگردی کے خلاف جنگ ناگزیر ہے اور کسی کو ریاستی رٹ چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔‘

اس سے پہلے اسلام آباد میں ’پاک چین مشاورتی میکانزم‘ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چین کے وزیر لیو جیان چاؤ نے پاکستان میں چینی سرمایہ کاری کو اندرونی استحکام اور بہتر سکیورٹی سے مشروط قرار دیا تھا۔ اس مطالبے کے فوراً بعد پاکستان میں سیاسی ہلچل پیدا ہوئی۔ پھر نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کے اجلاس کے دوران وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنی تقریر میں ملکی سکیورٹی کی ذمہ داری صرف فوج پر ڈالنے کی بجائے صوبوں سے بھی اپنا کردار ادا کرنے کی بات کی۔ اجلاس کے اعلامیے میں نہ صرف ملک میں چینی شہریوں کی سکیورٹی کے حوالے سے ایس او پیز وضع کرنے کی بات کی گئی ہے بلکہ دہشتگردی کے خاتمے لیے ایک نئے فوجی آپریشن ’عزمِ استحکام‘ آپریشن کا بھی اعلان کیا گیا۔

آپریشن عزم استحکام : چند دنوں میں طریقہ کار واضح ہوجائے گا: وزیر دفاع

ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’ہمالیہ سے اونچی‘ دوستی کے باوجود چین نے پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے یہاں اندرونی استحکام کا مطالبہ کیوں کیا اور کیا یہ اب بھی پاکستان میں مزید سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھتا ہے؟ پچھلے ہفتے اسلام آباد میں ’پاک چین مشاورتی میکانزم‘ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چینی وزیر لیوجیان چاؤ نے کہا تھا کہ پاکستان اور چین کے درمیان معاہدوں سے ترقی کے نئے مواقع پیدا ہوں گے لیکن ترقی کے لیے ’اندرونی استحکام ضروری ہے۔‘

چین کی کمیونسٹ پارٹی کے اہم رکن اور وزیر نے پاکستان کی تمام سیاسی قیادت کے سامنے یہ واضح کیا کہ سرمایہ کاری کے لیے یہاں سکیورٹی کی صورتحال کو بہتر بنانا ہو گا۔‘ انھوں نے کہا کہ ’بہتر سکیورٹی سے تاجر پاکستان میں سرمایہ کاری کریں گے۔‘ چینی وزیر نے کہا کہ پاک چین سی پیک منصوبے سے متعلق موجود سکیورٹی خطرات بڑی رکاوٹ ہیں۔ انھوں نے کہا کہ لوگ اکثر یہ کہتے ہیں کہ ’اعتماد سونے سے بھی زیادہ قیمتی شے ہے۔‘ لیو جیان نے کہا کہ ’پاکستان کے معاملے میں بنیادی طور سکیورٹی صورتحال ایسی شے ہے جو چینی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچا رہی ہے۔‘

سی پیک کے معاملات پر گہری نظر رکھنے والے صحافی اور تجزیہ کار خرم خسین کا خیال ہے کہ سرمایہ کاری کے حوالے سے پاکستان اور چین کے موقف میں تضاد ہے۔ انکے مطابق ’پاکستان کہتا ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری آئے گی۔۔۔ جبکہ چین کہتا ہے کہ اپنا گھر درست کرو۔ اب وہ سرمایہ کاری میں دلچسپی نہیں لے رہا۔‘ ان کے مطابق ’چین چاہتا ہے کہ اسے اب قرضے واپس ملیں جبکہ پاکستان اس طرح اپنا موقف پیش کر رہا ہے کہ جیسے چینی قطار میں لگ کر بس سرمایہ کاری کا ہی انتظار کر رہے ہیں۔‘ چینی وزیر کے خطاب کے بعد وزارت داخلہ کی طرف سے بھی ایک اعلامیہ جاری ہوا تھا جس کے مطابق وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کی زیر صدارت سکیورٹی امور کے حوالے سے اجلاس میں چینی شہریوں کی حفاظت کے لیے کیے جانے والے اقدامات کا جائزہ لیا گیا۔ وزارتِ داخلہ کے اعلامیہ کے مطابق اجلاس میں متعلقہ اداروں کی جانب سے سکیورٹی پلان اور مجموعی صورتحال پر بریفنگ دی گئی جبکہ اجلاس میں ملک میں سکیورٹی کی مجموعی صورتحال پر بھی غور کیا گیا۔

دوسری جانب چینی وزیر لیوجیان چاؤ نے وزیراعظم شہاز شریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے بھی ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں کے فوراً بعد وزیراعظم کی صدارت میں نیشنل ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی کا اجلاس طلب کیا گیا، جس میں دہشتگردی کے خاتمے کے لیے آپریشن عزم استحکام شروع کرنے کی منظوری بھی دی گئی تاکہ پاک چین سی پیک منصوبوں پر عمل درامد میں تیزی آ سکے۔

یاد رہے کہ کہ چین نے پاکستان میں 26 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے سی پیک کے فیز ون پر تقریباً کام مکمل کر لیا ہے۔ اس میں 60 کے قریب منصوبے تھے جن میں زیادہ تر روڈ انفراسٹرکچر اور توانائی کے شعبے سے متعلقہ تھے۔ لیکن منصوبے کی اگلی فیز پر کام رکا ہوا ہے جس کی بنیادی وجہ چین کے تحفظات ہیں۔ خیال رہے کہ گذشتہ دس سال میں بدقسمتی سے چینی شہریوں پر حملے ہوئے جن میں چین کا جانی نقصان ہوا۔ لہازا چین نے یہ طے کر لیا ہے کہ وہیں سرمایہ کاری کریں گے جہاں سکیورٹی صورتحال بہتر ہو گی کیونکہ چینی شہریوں کے تحفظ پر وہ کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ چین نے یہ طے کر لیا ہے کہ سی پیک منصوبے کے فیز ٹو کی طرف تب تک نہیں جانا جب تک سکیورٹی اور چینی شہریوں کی سکیورٹی فول پروف نہیں بنائی جائے گی۔ چین کے اس موقف نے پاکستانی حکام کو پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے کیونکہ چینی شہریوں کو مکمل تحفظ تب ہی ملے گا جب تحریک طالبان پاکستان کا مکمل خاتمہ ہو جائے، لیکن اس میں ایک لمبا عرصہ لگ سکتا ہے۔

Back to top button