تحریک انصاف دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کیوں روکنا چاہتی ہے؟

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان اس وقت نہ صرف دہشت گردی بلکہ شدت پسندی کی لپیٹ میں ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں فوج اور پولیس کے جوان جانیں قربان کر رہے ہیں۔انھی حالات پر قابو پانے کیلئے ایپکس کمیٹی نے آپریشن عزم استحکام لانچ کرنے کا فیصلہ کیا۔تاہم پی ٹی آئی نے یہ کہہ کر اس فیصلے کو مسترد کر دیا ہے کہ اسے پارلیمان میں پیش نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس پر بحث کی گئی ہے۔ یہاں سوال یہ پوچھنے چاہیے تھے کہ گذشتہ دس بارہ برسوں میں ضرب عضب اور ردالفساد جیسے آپریشن لانچ ہوئے، ہزاروں جوانوں نے جانیں قربان کیں، لیکن آج دوبارہ ہم اس نہج تک کیوں اور کیسے پہنچے کہ ایک اور آپریشن ناگزیر ہو چکا ہے؟ ان خیالات کا اظہار سینئر صحافی عادل شاہ زیب نے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں کیا ہے۔ عادل شاہ زیب کے مطابق یہ سوال بھی پوچھا جانا چاہیے تھا کہ یہ آپریشن کیوں، کیسے اور کہاں ہو گا؟ لیکن ان سوالات کی بجائے تین بڑی جماعتوں تحریک انصاف، جے یو آئی اور عوامی نیشنل پارٹی نے اس آپریشن کی مخالفت کا اعلان کر دیا۔

اپوزیشن کا یہ مؤقف بالکل بجا ہے کہ سیاسی قیادت اور قوم کو اعتماد میں لیے بغیر اتنا بڑا آپریشن نہیں شروع ہونا چاہیے لیکن حکومت وقت نے جب یہ واضح کر دیا ہے کہ اس بارے میں حتمی فیصلہ کابینہ اور پھر پارلیمان کرے گی جہاں اس پر تفصیلی بحث ہو گی تو اس کے بعد یہ معاملہ آگے بڑھنا چاہیے تھا، لیکن بدقسمتی سے تحریک انصاف عزم استحکام کو اپنے خلاف آپریشن قرار دے رہی ہے۔

یہ ایک ایسا انتہائی سنجیدہ دعویٰ ہے تاہم جب وزیر دفاع خواجہ آصف سے استفسار کیا گیا کہ کیا یہ آپریشن کسی سیاسی جماعت کے خلاف بھی ہو گا؟ یا باالفاظ دیگر اس کی آڑ میں سیاسی مخالفین کے خلاف کارروائیاں تو نہیں ہوں گی؟خواجہ آصف نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ ایسا ہرگز نہیں ہو گا، ان کے آپریشن عزم استحکام کے کوئی سیاسی مقاصد نہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ حکومت، پی ٹی آئی، جے یو آئی اور اے این پی کی قیادت کے اس بارے میں تمام تر خدشات دور کرنے لیے تیار ہیں اور ان سے رابطے بھی کریں گے۔اس کے بعد تو وے فارورڈ یہی ہونا چاہیے کہ سیاسی قیادت آپس میں بیٹھ کر کم از کم اس حساس معاملے کو خوش اسلوبی سے طے کرے۔

عدت نکاح کیس: سزا معطلی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ

عادل شاہ زیب کے مطابق یہاں اصل امتحان پیپلز پارٹی کا بھی ہے، جن کا اس معاملے پر مؤقف فیصلہ کن کردار ادا کر سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی وہ جماعت ہے، جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی قیادت کا نذرانہ دے چکی ہے اور اس معاملے پر پیپلز پارٹی کا ہمیشہ سے دو ٹوک مؤقف رہا ہے۔ اگر پیپلز پارٹی کو بھی اس آپریشن پر اعتراضات اور تحفظات ہوئے تو ایسے میں حکومت کا اس معاملے پر آگے بڑھنا تقریباً ناممکن بن جائے گا۔اگرچہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں شریک تھے لیکن اس بارے میں حتمی فیصلہ بلاول بھٹو اور آصف علی زرداری ہی کریں گے۔عادل شاہ زیب کے بقول اس وقت بڑھتی ہوئی دہشت گردی اتنا بڑا مسئلہ بن چکا ہے کہ آگے چل کر خدانخواستہ ملک کو مزید عدم استحکام کی طرف دھکیل سکتا ہے۔ چینی باشندوں پر حملوں سے لے کر پاکستان کے اندر انڈین خفیہ ایجنسی کی ٹارگٹ کلنگز ، بلوچستان میں فوجی تنصیبات پر حملے ہوں یا پھر خیبرپختونخوا میں روزانہ کی بنیاد پر فوج اور پولیس پر جان لیوا حملے، ان کا سدباب باہمی مشاورت اور اتفاق رائے کے ساتھ ہر حالت میں کرنا پڑے گا، کیونکہ یہ ملک ہے تو ہم سب ہیں، اس ملک میں امن اور استحکام ہے تو ہم سب کی زندگیوں میں استحکام ہے اور ان تمام چیزوں کے لیے سب سے زیادہ ضروری سیاسی استحکام ہے اور سیاسی استحکام کی متلاشی سیاسی قیادت ہی اس ملک کو سیاسی استحکام بخش سکتی ہے۔

Back to top button