پاکستان کو گندا کرنے کی کوشش میں عمران اپنا منہ کیسے کالا کرنے لگا؟

عمران خان کی تحریک انصاف نے قومی اسمبلی میں امریکہ کے حوالے سے پیش کردہ جوابی قرارداد کی مخالفت کر کے ایک مرتبہ پھر ثابت کر دیا ہے کہ اس کا بنیادی مشن صرف اور صرف پاکستان کے راستے میں کانٹے بونا اور اسکے چہرے پر کالک تھوپنا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام گند کرتے ہوئے دراصل پی ٹی آئی اپنا ہی چہرہ اور نامۂِ اعمال سیاہ تر کئے جا رہی ہے۔

معروف لکھاری اور کالم نگار سینیٹر عرفان صدیقی اپنی تازہ تحریر میں ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے سوال کرتے ہیں کہ کیا کسی بھی مہذب جمہوری ملک میں کوئی ایسا گروہ ہے جو خود کو سیاسی جماعت کہلاتا ہو، صبح وشام اپنے حقوق کیلئے واویلا کرتا ہو لیکن اپنی تمام تر توانائیوں کی ایک ایک رمق اپنے وطن کے مفادات کو نقصان پہنچانے کیلئے وقف کر رکھی ہو۔ انتخابات ہوئے پانچ ماہ ہونے کو ہیں۔ امریکی ترجمان کئی بار اپنا سرکاری موقف دے چکے ہیں کہ ’’یہ پاکستان کا داخلی معاملہ ہے۔‘‘ لیکن اب اچانک یہ داخلی معاملہ یکایک اِس قدر سنگین عالمی مسئلہ کیسے بن گیا کہ امریکی کانگرس کو پاکستان کے خلاف ایک شعلہ بداماں قرارداد منظور کرنا پڑ گئی؟ اسکا جواب چوکوں چوراہوں میں ریڑھی لگانے والے پاکستانی کو بھی معلوم ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ جمہوریت، انسانی حقوق، آزادیِٔ فکروعمل اور احترامِ انسانیت جیسے سارے اصول، امریکی خارجہ حکمتِ عملی کی کچی ڈور سے بندھے ہیں۔ اُسکے مفاد پر ہلکی سی آنچ بھی آئے تو یہ ساری تہذیب و اخلاق کچرا کُنڈی کا رزق بن جاتی ہے۔ایک بڑا سبب یہ ہے کہ چند ماہ بعد امریکی انتخابات میں حصہ لینے والے امریکی ارکانِ کانگرس کو پیسہ بھی چاہیے اور ووٹ بھی۔ اور پی ٹی آئی منظم طور پر اپنے اپنے امیدواروں کو یہ دونوں چیزیں اس شرط پر فراہم کررہی ہے کہ وہ پاکستان دشمن قرار داد کی حمایت کریں۔

فواد چودھری کا زبردستی پی ٹی آئی چھڑوانےکاانکشاف

عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ 1980 کی دہائی میں امریکی مفاد کا تقاضا تھا کہ کابل تک آ پہنچنے والے سرخ ریچھ کو مار مار کر بھگا دیا جائے۔ تب پاکستان میں جمہوریت تھی نہ پارلیمنٹ۔ بنیادی انسانی حقوق تھے نہ دور دور تک انتخابات کا نام ونشان۔ اسلحہ کے ڈھیر اور ڈالروں کی بوریاں بھیجتے وقت امریکہ نے اُن ’’اصولوں اور نظریات‘‘ کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا جو کانگرس کی تازہ قرارداد میں تابندہ موتیوں کی طرح جگمگا رہے ہیں۔ مارشل لا کے کامل گیارہ برسوں کے دوران اِس نوع کی کوئی قرارداد کسی بھی امریکی ایوان میں جگہ نہ پاسکی۔ آمریت کیساتھ اس والہانہ عشق پر اُس دن اوس پڑ گئی جس دن آخری روسی سپاہی دریائے آمو کے اُس پار اتر گیا۔ جنرل مشرف نے اکتوبر 1999ءمیں جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر شخصی آمریت کا سکّہ رائج کیا تو امریکہ نے کھل کر مذمت کی۔ بھارت کا پانچ روزہ دورہ مکمل کرکے، صدربل کلنٹن چند گھنٹوں کیلئے اسلام آباد آئے تو اُسے رسمی یا غیررسمی دورے کے بجائے، ’’اسٹاپ اوور‘‘ کا تحقیر آمیز نام دیاگیا۔ امریکہ کی جانب سے کڑی شرائط لگیں کہ استقبال کیلئے پرویز مشرف ہوائی اڈے پر آئے نہ ایوان صدر۔ اُن کے ساتھ کوئی تصویر بھی نہیں بننی چاہئے۔ تب امریکہ کی نگاہ میں آئین شکن آمر مَردِ نامطلوب ہی نہیں، فرِدمردود بھی تھا۔

عرفان صدیقی کہتے ہین کہ پھر نائن الیون ہوگیا اور دنیا بدل گئی۔ ڈکٹیٹر مشرف کی متعفن آمریت، خوشبوئوں میں رچی بسی حسینۂِ عالم بن کر، امریکہ کے حُجلۂِ عروسی میں آ بیٹھی۔ آج گزگز بھر لمبی قراردادیں منظور کرنے والی امریکی کانگرس نے پلٹ کر بھی نہ دیکھا کہ پاکستانی آئین کہاں ہے؟ ججوں پہ کیا گزری؟ مشرف کا رسوائے زمانہ صدارتی ریفرنڈم کیسے ہوا؟ 2002ءکے انتخابات کتنے منصفانہ تھے؟ سیاسی حریف کن زندانوں کا رزق ہوگئے؟ امریکی مفاد سارے اصولوں کو ہڑپ کرگیا۔

عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ مجھے یاد آیا۔ 1958ء میں پہلے آئین کے تحت، پہلے عام انتخابات ہونے کو تھے کہ ایوب خان کے ٹینک سڑکوں پر آگئے۔ وہ ایوب خان امریکہ کا محبوب ترین حکمران بن گیا۔ تاریخ کے سب سے ’’آزادانہ اور منصفانہ‘‘ انتخابات میں ، قائداعظم کی بہن، مادرِ ملت فاطمہ جناح ’’ہار‘‘ گئیں۔ کراچی والوں سے کچھ کوتاہی سرزد ہوگئی تو ’’فتح‘‘ کے اگلے ہی دن، فاتح جرنیل کے بیٹے، گوہر ایوب خان نے جشنِ کامرانی منایا۔ کم وبیش تیس شہری جاں بحق ہوگئے۔ لیکن امریکہ کے ہونٹ سلے رہے۔جمہوری ادوار کیساتھ امریکہ کو ہمیشہ ایک چِڑ سی رہی۔ شاید اسلئے کہ ووٹ لیکر آنیوالے، اپنے ووٹروں سے ڈرتے ہیں اور غیروں کا ترنوالہ نہیں بنتے، آمروں کو عوام کا کچھ ڈَر خوف نہیں ہوتا۔ آمریت کی جبلت کے عین مطابق جابروں کی دہلیز کیلئے آمروں کی جبین میں ہمیشہ ہزاروں سجدے تڑپتے رہتے ہیں۔ اسی لئے وہ عالمی شاطروں کو عزیز ہوتے ہیں۔ 1998ءمیں بھارتی ایٹمی دھماکوں کے بعد ، دنیا بھر کی دھمکیوں کے باوجود نواز شریف کا اپنے عزم پر ڈٹے رہنا اور 2001 میں مشرف کا کولن پاول کی ایک ٹیلی فون کال پر ڈھیر ہوجانا اس تقابل کی عمدہ مثالیں ہیں۔

عرفان صدیقی بتاتے ہیں کہ قیام پاکستان کے دِن سے آج تک، کوئی امریکی صدر کسی جمہوری دور میں پاکستان نہیں آیا۔ آئزن ہاور پاکستان آنیوالے پہلے امریکی صدر تھے۔ وہ نومبر 1959 میں تب آئے جب پہلا ڈکٹیٹر، ایوب خان، آمریت کی پہلی سالگرہ منارہا تھا۔ جانسن نے ایوب ہی کے عہد میں دسمبر 1967 میں پاکستان کا دورہ کیا۔ رچرڈ نکسن اگست 1969ءمیں پاکستان تشریف لانے والے تیسرے امریکی صدر تھے۔ انہوں نے جنرل یحیٰ خان کا ’’عہدِجمہوریت‘ پسند فرمایا۔ چوتھے صدر بل کلنٹن، بادل نخواستہ ہی سہی، تب پاکستان آئے جب مشرف کی حکمرانی تھی۔ پانچویں امریکی صدر جارج ڈبلیو بُش مارچ 2006ءمیں پاکستان آئے جب مشرف، ’’مشرف بہ امریکہ‘‘ ہوچکا تھا۔ کسی امریکی صدر نے ذوالفقار علی بھٹو، نوازشریف، بے نظیر بھٹو اور عمران خان کے عہد میں سرزمین ِپاکستان پر قدم رکھنا، شایانِ شان نہ جانا۔

عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ حالیہ پاکستان مخالف امریکی قرارداد کے ڈانڈے، نوازشریف کے تیسرے عہدِ وزارت عظمی سے ملے ہیں۔ سی پیک کی شکل میں ساٹھ ارب ڈالر کی چینی سرمایہ کاری نے، دونوں ممالک کے دوستانہ تعلقات کی نئی جہتیں کھول دیں۔ اس کیساتھ ہی امریکہ اور بھارت میں خطرے کی گھنٹیاں بج اٹھیں۔ ان منصوبوں کی ناکامی کیلئے نوازشریف کو راستے سے ہٹانا ضروری قرار پایا۔ 2018 کے انتخابات سے پہلے ، الیکشن کے دوران اور انتخابات کے بعد عمران کو اقتدار دلوانے کے لیے جو کچھ ہوا، امریکی کانگرس نے اُسکی طرف آنکھ بھر کر دیکھنا بھی گوارا نہ کیا۔ اب پی۔ٹی۔آئی کا ملک دشمن امریکی قرارداد پر شادیانے بجانا، بجا ہے۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ جج صاحبان کے خط کے بعد یہ اُس کی دوسری بڑی کامیابی ہے۔ اُس نے اپنی زَرخرید لابنگ فرموں کے ذریعے لاکھوں ڈالر اس مہم میں جھونکے۔ پاکستان کے چہرے پر کالک تھوپنے کے اس منصوبے میں پی۔ٹی۔آئی کو بھارت، امریکہ اور اسرائیل کا بھرپور تعاون حاصل تھا۔ لیکن یاد رہے کہ یہ گند کرتے ہوئے دراصل پی ٹی آئی اپنا ہی چہرہ اور نامۂِ اعمال سیاہ تر کئے جا رہی ہے۔

Back to top button