کیا عمران خان کی رہائی سے پہلے پی ٹی آئی ٹوٹنے والی ہے؟

پی ٹی آئی رہنماؤں کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں، جہاں ایک طرف پارٹی پالیسیوں سے اختلاف کرنے پر تحریک انصاف نے پارٹی رہنما شیر افضل مروت اور شاندانہ گلزار کی پارٹی کی کور کمیٹی رکنیت ایک ماہ کیلئے معطل کر دی ہے وہیں دوسری طرف سینیٹر شبلی فراز نے شیر افضل مروت کو غیر اہم شخص قرار دے دیا ہے۔

خیال رہے کہ پی ٹی آئی سیکرٹری جنرل عمر ایوب کے استعفے کے اعلان کے بعد اپنے ایک بیان میں شیر افضل مروت نے کہا تھا کہ پارٹی کے اہم عہدوں پر فائز چند دیگر افراد کو بھی ان کی پیروی کرنی چاہیئے، شبلی فراز کے استعفے سے ہی پارٹی قبضہ مافیا کے چنگل سے آزاد ہوگی۔اپنے بیان میں شیر افضل مروت نے کہا کہ شبلی فراز کو ہٹایا گیا تو وعدہ کرتا ہوں کہ پارٹی وقت کی ضرورت کے مطابق اٹھے گی، پارٹی کارکن مجھے میدان میں چاہتے ہیں تو میرے مطالبے کے حق میں آواز بلند کریں۔تاہم بعد ازاں پی ٹی آئی کور کمیٹی نے شیرافضل مروت اور شاندانہ گلزار پر مسلسل ڈسپلن کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتے ہوئے ان کی کور کمیٹی رکنیت ایک ماہ کیلئے معطل کردی تھی۔

واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف میں چند دن قبل بھی اختلافات سامنے آئے تھے اور 21 ارکان قومی اسمبلی نے الگ گروپ بنانے کا عندیہ دیا تھا۔ذرائع نے بتایا تھاکہ شہریار آفریدی کے استعفیٰ سے متعلق بیان کے بعد27 سے زائد ممبران نے استعفوں پر مشاورت کی جبکہ شاندانہ گلزار اور شیر افضل مروت سمیت متعدد ممبران نے پارٹی قیادت کی نااہلی پراحتجاج بھی کیا تھا۔شاندانہ گلزار نے بتایا تھا کہ شہریار آفریدی کا پیغام یہی تھا کہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لیے کچھ نہِیں ہو رہا، اس لیے مستعفی ہو جانا چاہیے اور جب یہ بات اسد قیصر نے سنی تو کہا کہ پھر وہ بھی مستعفی ہوں گے۔ایم این اے شاندانہ گلزار کے مطابق شیر افضل مروت، علی محمد خان، جنید اکبر، پنجاب سے امیر سلطان اور شبیر قریشی کے بھی یہی جذبات ہیں اور وہ پارٹی کی سیاسی اور پارلیمانی کمیٹی میں مشکوک افراد کی موجودگی اور بے عملی کی وجہ سے تنگ ہیں۔

دوسری جانب چیئرمین تحریک انصاف بیرسٹر گوہر خان کا دعویٰ ہے کہ پی ٹی آئی میں نہ کوئی اختلاف ہے اور نہ ہی کوئی گروپنگ موجود ہے تاہم سینئر صحافی شاہزیب خانزادہ کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اختلافات کی خبریں مزید زور پکڑتی جارہی ہیں، پارٹی کے اندر سے موجودہ قیادت کی حکمت عملی پر اعتراضات اٹھ رہے ہیں، پارٹی میں گروپ بندی کے خدشات گہرے ہورہے ہیں بلکہ اب ان کا میڈیا پر اظہار بھی ہورہا ہے، یہ سب اس وقت ہورہا ہے جب عمران خان اور بشریٰ بی بی سمیت متعدد رہنما جیل میں ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ عمر ایوب کے استعفے کے بعد پی ٹی آئی کے خیبرپختونخوا سے رکن قومی اسمبلی اور کور کمیٹی کے رکن جنید اکبر نے کور کمیٹی سے استعفیٰ دیتے ہوئے اپنی پوسٹ میں کہا کہ پی ٹی آئی میرا گھر ہے، نہ میں کسی گروپ کا حصہ ہوں نہ بنوں گا، لیکن پی ٹی آئی کے کارکنان کو خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ مخصوص لوگ بانی سے ملنے اڈیالہ جیل جاتے ہیں مگر ہمیں ملنے نہیں دیتے۔ان کے مطابق ہمیں صرف یہی بتایا جاتا ہے کہ موجودہ پارٹی پالیسی عمران خان کی ہے، بدقسمتی یہی ہے کہ سارے فیصلوں کے بینفشری یہی لوگ، ان کے خاندان اور دوست ہیں، ان میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جنہوں نے 9مئی کے بعد غبارے تک نہیں اڑائے۔

شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے سابقہ اراکین بھی موجودہ قیادت پر تنقید کرتے نظر آرہے ہیں جبکہ یہ رہنما پارٹی میں واپسی چاہتے ہیں،اس حوالے سے ذرائع کی خبر کے مطابق عمران خان کی ہدایت پرا یک سات رکنی کمیٹی قائم کی گئی ہے جو پارٹی میں سابقہ رہنماؤں کی واپسی کا فیصلہ کرے گی۔ذرائع کے مطابق پارٹی قیادت کی رہائی تک کسی بھی سابق رہنما کی پارٹی میں واپسی کو روک دیا گیا ہے۔

شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ ٹیریان وائٹ کیس عمران خان کے سیاسی کیریئر پر اثرانداز ہو نہ ہو، اس کیس میں ان کی نااہلی ہو یا نہ ہو مگر یہ کیس حکومت، عدلیہ اور اداروں کو آمنے سامنے لانے اور ایک سٹنگ جج کی جانب سے اپنے ہی چیف جسٹس کو چارج شیٹ کرنے کی ایک اور وجہ ضرور بن سکتا ہے، یہ وہی معاملہ ہے جس میں دباؤ کا ذکر اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججوں نے اپنے خط میں بھی کیا تھا۔اسلام آباد ہائیکورٹ نے ٹیریان وائٹ کیس پر جسٹس محسن اختر کیانی کا وہ آرڈر جاری کردیا ہے جس سے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق نے اختلاف کیا تھا، اس کے ساتھ ہی آرڈر دینے والے بنچ کو توڑ کر نیا بنچ بنانے کیخلاف بنچ کے رکن جسٹس ارباب محمد طاہر کا فیصلہ بھی جاری کردیاگیا ہے جس میں انہوں نے اس پورے معاملہ میں جسٹس عامر فاروق کے کردار پر سوال اٹھایا ہے۔

Back to top button