کیا اگلے چند ہفتوں میں جمہوریت کا بوریا بستر گول ہونے والا ہے؟

معروف لکھاری اور تجزیہ کار حفیظ اللہ نیازی نے سنی اتحاد کونسل کی پٹیشن پر تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دینے کے عدالتی حکم کو ماورائے آئین قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے ججز نے نظریہ ضرورت کے تحت آئین دوبارہ سے تحریر کر دیا تا کہ عمران خان کو آڑے ہاتھوں لینے والوں‘‘ کو آڑے ہاتھوں لیا جا سکے۔ لیکن خاطر جمع رکھیں، اس عدالتی فیصلے پر عمل نہیں ہو گا، اور اس کے ساتھ بھی وہی سلوک ہو گا جو سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے پنجاب اور KP میں الیکشن کروانے کے فیصلے کیساتھ ہوا تھا۔

جسٹس ریٹائرڈ مظہر عالم میاں خیل کی بھی ایڈہاک جج بننے سے معذرت

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں حفیظ اللہ خان نیازی کہتے ہیں کہ بظاہر الیکشن کمیشن اور اسٹیبلشمنٹ عدالتی فیصلے کو خاطر میں نہ لانے کی ٹھان چکے ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ پر قیاس آرائیاں ابھی جاری تھیں کہ حکومت نے تحریک انصاف کو کالعدم قرار دینے کا عندیہ دے ڈالا اور یوں بحران دُوچند ہو چکا۔ اب حالات ایسے ہو چکے ہیں کہ اگلے چند ہفتوں میں جمہوری نظام کا خاتمہ بالخیر ہونے کا امکان بھی پیدا ہو چکا ہو؟ حفیظ اللہ نیازی کہتے ہیں کہ دراصل عمران خان کا یقین کہ اسے اب اقتدار کبھی نہیں ملنا چنانچہ اسکے ذہن پر ایک ہی دُھن سوار ہے کہ وہ کسی طرح ملک میں خانہ جنگی اور انارکی پھیلا کر عوامی طاقت سے فوج کو پچھاڑ ڈالے۔ خدانخواستہ ایسی صورتحال ہوئی تو عمران کے پیسے پورے ہو جائیں گے۔ انکا کہنا یے کہ موجودہ بحران کا نقطہ آغاز عمران خان کا 2014 کا دھرنا تھا، تب جنرل راحیل شریف کے سامنے مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ بھی تھا۔ جنرل راحیل کو بھی اپنے سابقین کی طرح ایکسٹینشن یا فیلڈ مارشل بننے کی خواہش تھی، چونکہ نواز شریف توسیع کے مخالف تھے لہذا انہیں دباؤ میں لانے کے لیے عمران خان کے جسد خاکی میں دوبارہ روح پھونکنے کی ٹھانی گئی۔ عمران کو کریڈٹ دینا چاہیئے کہ موصعف 2014 کے دھرنے سے لیکر آج تک عوام الناس کو سڑکوں پر لانے میں ہمیشہ بُری طرح ناکام رہے ہیں۔

حفیظ اللہ نیازی کہتے ہیں کہ اپنی مقبولیت کے عروج پر عمران کا 26 نومبر 2022 کا لانگ مارچ، ان کی جیل بھرو تحریک، الیکشن دھاندلی پر 5 بار ملک گیر ہڑتال کی کالیں وغیرہ سب فیل ہوئیں۔ ایک بھی موقع ایسا نہیں تھا کہ عوام الناس نے قائد کی کال پر کان دھرے ہوں۔

جب 2016 میں عمران خان کی لاک ڈاؤن کی کال بھی ناکام ہوئی تو سپریم کورٹ کا حرکت میں آنا بنتا تھا۔ عمران کو پیغام بھجوایا گیق کہ ’’تم اگر عوام نہیں نکال سکے تو کیا ہوا، سپریم کورٹ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا‘‘۔ پانامہ پیپرز پر سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس راحیل شریف کے تو کام نہ آیا البتہ جنرل باجوہ کے مفاداتی پلان کی راہیں کشادہ کر گیا۔ باوجود اس حقیقت کے کہ پانامہ پیپرز میں نواز شریف کا نام نہیں تھا، جنرل باجوہ نے گیم پلان ترتیب دے ڈالا۔ پہلے مرحلے میں نواز شریف کو پیشکش کی گئی کہ اگر آپ وزارتِ عظمی چھوڑ دیں تو پانامہ کیس آپ کی جان چھوڑ دیگا‘‘۔ لیکن نواز شریف کی جانب سے انکار کے بعد سازش میں تیزی آ گئی اور عمران کو بھرپور طریقے سے میاں صاحب کے خلاف استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔  ویسے بھی یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ 1996 سے لیکر آج تک، عمران خان کی سیاست کی پہلی، دوسری اور تیسری ترجیح ہمیشہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کیساتھ گٹھ جوڑ ہی تو ہے۔

حفیظ اللہ نیازی کہتے ہیں کہ نواز شریف کو گندا کرنے کے لیے پہلے مودی کے دورہ پاکستان کا سکینڈل بنایا گیا کیونکہ جب کسی بھی پاکستانی سیاستدان کو بھارت سے جوڑا جاتا ہے تو فوج بطور ادارہ ایک صفحہ پر اُس سے متنفر ہو جاتا ہے۔ 2018 ءالیکشن سے پہلے مضبوط و مقبول لیڈر نواز شریف کے میڈیا اور عدالتی ٹرائل کا مقصد جہاں عوام الناس کو متنفر کرنا تھا، وہاں ’’مودی کا یار‘‘ بتا کر ادارے میں نواز شریف کیخلاف نفرت میں یکسوئی پیدا کرنا زیادہ اہم تھا۔لیکن عوام الناس کو متاثر کرنے میں باجوہ پلان بُری طرح ناکام رہا، چنانچہ نواز شریف پر تاحیات پابندی لگانے، انہیں وزارت عظمیٰ سے معزول کرنے، اور پارٹی صدارت چھیننے جیسے عدالتی فیصلے کرائے گے۔ انتخابات سے چند ہفتے پہلے نون لیگ کو شیر کے نشان سے محروم کیا گیا، پھر عدالتوں کے ذریعے لیگی لیڈروں کو نااہل اور اغوا کروایا گیا، اور آخر میں نہایت بے شرمی، بے حیائی اور ڈھٹائی کے ساتھ زبردستی بذریعہ RTS الیکشن 2018 لوٹ لیا گیا تاکہ عمران کو وزارت عظمی پر فائز کیا جا سکے۔ اس الیکشن میں نتائج سادہ کاغذ پر مرتب ہوئے جو ’’فارم 45‘‘ کا بدل تھے۔ لیکن ہمیں باجوہ گیم پلان کو کامیابی سے آگے بڑھانے میں ثاقب نثار عرف بابا رحمتے جیسے نیچ شخص کی سیاہ کاریاں بھی یاد رکھنا ہونگی۔ یوں جنرل باجوہ کا پہلا معرکہ سَر ہوا تو جنرل آصف غفور نے آئی ایس پی آر کے ترجمان کی حیثیت سے ’وتعزمن تشاء وتذل ومن تشاء‘ کی ٹوئیٹ کر ڈالی، یعنی کہ پوسٹر بوائے عمران خان کا بد ترین دھاندلی سے جیتنا انکی عزت افزائی اور نواز شریف کا جیل جانا ذلت قرار دیا گیا گیا۔ جنرل باجوہ نے اپنے ’’کارنامے‘‘ پر سینہ پھلائے ہوئے کٹھ پتلی کپتان کی فتح کو ’’جمہوریت کی فتح قرار دیا۔ یوں 26 جولائی 2018 کو پہلی بار پاکستان بغیر کسی مارشل لا کے نفاذ کے 100 فیصد فوجی کنٹرول میں چلا گیا جس کا پورا کریڈٹ جنرل باجوا اور ان کے سہولت کار عمران خان کو دیا جانا چاہیئے۔ لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اج جنرل باجوا منہ چھپاتا پھر رہا ہے اور عمران خان اڈیالہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند ہے۔

Back to top button