مقابلہ حسن میں شرکت کی اجازت حکومت نے دی؟

تحریر : انصار عباسی ۔۔۔۔ بشکریہ روزنامہ جنگ

روشن خیالی کے نام پر پاکستان میں بے حیائی کو فروغ دینے والے جنرل پرویز مشرف کے دور میں جب بیرون ملک مقیم ایک پاکستانی خاتون نےخود کو عالمی مقابلہ حسن کیلئے پاکستان کی نمائندہ کے طور پر پیش کیا تو اس پرتوجہ دلانے پر اُس وقت کے سیکریٹری کلچر نے فوری طور پر اس مسئلہ کو وزارت خارجہ کے ذریعے متعلقہ بین الاقوامی ادارہ کے ساتھ اُٹھایا کہ حکومت پاکستان کی اجازت کے بغیر ایسے مقابلہ میں کوئی کیسے پاکستان کی نمائندگی کر سکتا ہے۔ سیکریٹری کلچر نے اُس وقت مجھ سے بات کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ کسی ایسے مقابلہ کیلئے پاکستان کے نام کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

جارجیا کے گجر

اُنہوں نے ایسا ہی کیا ۔ حکومت کے فوری ردعمل کے بعد اُس خاتون کو مقابلہ حسن میں پاکستان کا نام استعمال کرنے سے روک دیا گیا اور اس طرح وہ مقابلہ سے ہی باہر ہو گئیں۔ گزشتہ سال نگراں حکومت کے دور میں جب پاکستان کے حوالے سے ایسی ہی ایک خبر شائع ہوئی تو اس مسئلہ کو ٹویٹر کے ذریعے اُٹھایا گیا اور حکومت سے سوال کیا گیا کہ مس یونیورس مقابلہ حسن میں پانچ پاکستانی لڑکیوں کو پاکستان کی نمائندگی کرنے کی اجازت کس نے دی؟ آیایہ فیصلہ وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کیا یا ان کی کابینہ کے کسی رکن یا مشیر نے کیا؟ کیا کوئی حکومت پاکستان کی اجازت کے بغیر پاکستان کی نمائندگی کر سکتا ہے؟ جس پر نگران وفاقی وزیر برائے اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے ٹیوٹر پر لکھاکہ حکومت اور ریاست پاکستان کی نمائندگی ریاست اور حکومتی ادارے کرتے ہیں، ہماری حکومت نے کسی بھی غیر ریاستی یا غیر سرکاری شخص یا ادارے کو ایسی کسی سرگرمی کیلئے نامزد نہیں کیا اور ایسا کوئی شخص یا ادارہ ریاست وحکومت کی نمائندگی نہیں کرسکتا ۔ اس معاملہ کے خلاف معروف عالم دین محترم مفتی تقی عثمانی نے بھی سوشل میڈیا پربات کی تھی جبکہ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے اسے شرمناک فعل قرار دیا تھا۔ اس پر نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے دفتر خارجہ کو ہدایت کی کہ وہ متحدہ عرب امارات کی حکومت سے رابطہ کریں اور اس معاملے کو حکام کے سامنے اٹھائیں کہ کس طرح ایک کمپنی حکومت کی منظوری کے بغیر مس یونیورس مقابلہ میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے مقابلہ حسن منعقد کرسکتی ہے۔ اس سے قبل نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کو ہدایت کی تھی کہ وہ اس بات کی تحقیقات کرے کہ پاکستانی ماڈلز کے مقابلہ حسن کا انتظام کون کر رہا ہے اور مس یونیورس مقابلہ حسن میں حصہ لینے کیلئے پاکستان کا نام استعمال کر رہا ہے۔ آئی بی کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ ان پاکستانی نژاد خواتین کا انتخاب دنیا بھر سے 200 درخواست دہندگان کے پول میں سے ایک سروے کے ذریعے کیا گیا تھا۔ چند دن قبل ایک بار پھر مس یونیورس پاکستان کے حوالے سے خبریں شائع ہوئیں اور جیو نیوز میں اس حوالے سے ایک خاتون کا انٹرویو بھی کیا گیا لیکن یہ اہم ترین سوال نہیں پوچھا گیا کہ وہ کیسے اور کس کی اجازت سے پاکستان کا نام استعمال کر رہی ہیں۔ سوال پھر وہی پرانا ہے کہ کیا اس مقابلہ میں حصہ لینےکیلئےشہباز شریف حکومت نے کسی کو اجازت دی؟ اگر نہیں تو پھر مقابلہ حسن کے حوالے سے پاکستان کا نام ایک بار پھر کیوں استعمال کیا جا رہا ہے؟ اس سلسلے میں کیا وزیراعظم شہباز شریف کوئی ایکشن لیں گے؟ کیا اس پر پارلیمنٹ میں کوئی بات کی جائے گی؟

Check Also
Close
Back to top button