کیا نوٹوں کی بارش نے اولمپیئن ارشد ندیم کو ابنارمل کر دیا ہے ؟

معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار جاوید چوہدری نے کہا ہے کہ انتہائی برے حالات‘ غربت اور ٹریننگ کی سہولتوں کے بغیر اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتنے والے پاکستانی ایتھلیٹ ارشد ندیم کے ساتھ سب سے بڑا ظلم یہ کیا گیا کہ ہم نے اس پر نوٹوں کی بارش کر کے اسے ابنارمل کر دیا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ہم خواجہ سرا کے بچے کی طرح ارشد ندیم کو چوم چوم کر مار رہے ہیں‘ یہ بے چارہ کام یابی کے اتنے صدمے برداشت نہیں کر سکے گا‘ آپ اسے اگلے سال کسی میچ میں بھجوا کر دیکھیے گا‘ یہ آپ کو بری طرح شرمندہ کرائے گا کیوں کہ ہم نے انعامات کی بھرمار کر کے اس شخص کی مت مار کر رکھ دی ہے۔ لوگ اس کے گھر چیک اور نقد رقم لے کر جا رہے ہیں اور ارشد ان کے ساتھ تصویریں بنوا رہا ہے۔ وہ اب اپنے ہر ملاقاتی سے چیک‘ نقد انعام یا پلاٹ کی توقع لگا کر بیٹھا رہتا ہے‘ جب کہ دوسری طرف امریکا اور چین میں ایسے 40 اور جاپان اور آسٹریلیا میں 38 کھلاڑی ہیں جنہوں نے اپنے ملکوں کےلیے گولڈ میڈلز جیتے تھے لیکن وہ اب بھی نارمل زندگی گزار رہے ہیں۔

عمران دوبارہ حکومت کی بجائے فوج سے مذاکرات کی بات کیوں کرنے لگے؟

اپنی تازہ تحریر میں جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ سوال یہ ہے کہ ہم نے ارشد ندیم کو نارمل کیوں نہیں رہنے دیا اور کیا وہ کبھی اب ایک نارمل زندگی گزار سکے گا؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ ارشد ندیم بے شک ایک با کمال انسان ہے‘ اس نے چالیس سال بعد پاکستان کو گولڈ میڈل سے نوازا‘ ہم نے آخری بار 1984میں ہاکی میں اولمپکس میں گولڈ میڈل لیا تھا لیکن یہ ایک بندے کا کارنامہ ہے۔ دوسری جانب ملک میں سو کے قریب اسپورٹس آرگنائزیشنز کام کررہی ہیں‘ قوم ان پر اربوں روپے خرچ کرتی ہے‘ ان کے پاس ایکڑوں پر پھیلے کمپلیکس بھی ہیں۔ آپ ان کے بجٹ اور مراعات دیکھیں اور ان کے ملازمین کی تعداد دیکھیں اور اس کے بعد ان سے پوچھیں آپ لوگوں نے ان چالیس برسوں میں ملک کو کیا دیا ہے؟ ہم نے پیرس اولمپکس میں صرف ایک میڈل لیا جب کہ ہمارے 40 کھلاڑی اور آفیشلز پیرس گئے‘ کیا ان سے یہ نہیں پوچھنا چاہیے ان کے ٹریول‘ ہوٹلز اور خوراک اور ٹی اے ڈی اے پر کتنی رقم خرچ ہوئی؟کیا ان سے یہ بھی نہیں پوچھنا چاہیے ملک کی تمام اسپورٹس آرگنائزیشنز پر پچھلے چالیس برسوں میں کتنے ارب روپے خرچ ہوئے؟ ان اخراجات کے بعد یہ ایک بھی میڈل کیوں نہیں حاصل کر سکے اور اگر ہم نے میڈل نہیں لینا تھا تو پھر ان آرگنائزیشن کی کیا ضرورت ہے؟ تیسرا سوال  یہ ہے کہ ‘کیا یہ حقیقت نہیں کہ پاکستان کی تمام اسپورٹس آرگنائزیشنز‘ بورڈز اور وزارتیں ارشد ندیم کے پیچھے پناہ لے رہی ہیں۔ یہ سب ارشد ندیم زندہ باد کے نعرے لگا کریا اس کے اعزاز میں تقریبات منعقد کر کے قوم کی توجہ اپنی ناقص کارکردگی سے ہٹا رہی ہیں۔

جاوید چوہدری سوال کرتے ہیں کہ کیا ہمسری حکومت بھی ارشد ندیم کو بار بار تقریبات میں بلا کر اپنی نالائقی پر پردہ نہیں ڈال رہی ؟ کیا حکومت ایسا کر کے عوام کی عوامی مسائل سے توجہ نہیں ہٹا رہی؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وزیر اعظم ارشد ندیم کی کام یابی کے بعد ایک تحقیقاتی کمیشن بناتے اور سپورٹس کے تمام اعلیٰ عہدیداروں سے پوچھتے تم نے وقت پر ارشد ندیم کی سپورٹ کیوں نہیں کی تھی؟ یہ شخص جیولین کی ٹریننگ اور باقاعدہ سینٹر کے باوجود گولڈ میڈل تک کیسے پہنچ گیا اور تم اربوں روپے کی سرمایہ کاری کے باوجود کانسی کا ایک تمغہ بھی کیوں حاصل نہیں کر سکے؟ تمہارے کھلاڑی ٹریننگز اور کوچنگ کے باوجود کمال کیوں نہیں کر سکے؟ میرا خیال ہے وزیراعظم کو ان سے حساب لینا چاہیے تھا۔ سینیر صحافی کا کہنا ہے کہ ہم خواجہ سرا کے بچے کی طرح ارشد ندیم کو چوم چوم کر مار رہے ہیں‘ یہ بے چارہ کام یابی کے اتنے صدمے برداشت نہیں کر سکے گا‘ آپ اسے اگلے سال کسی میچ میں بھجوا کر دیکھ لیجیے گا‘ یہ آپ کوبری طرح شرمندہ کرائے گا‘ کیوں؟ اس لیے کہ ہم نے اس کی وہ بھوک‘ وہ ڈرائیو ہی مار دی ہے جس سے اس نے جنم لیا تھا‘ ہمیں چاہیے تھا ہم اسے چھوٹا سا گھر‘ گاڑی اور تاحیات تنخواہ دے دیتے‘ اس کے نام پر ایک فنڈ بناتے‘ گورنمنٹ اور بزنس مین اس فنڈ میں رقم جمع کرا دیتے‘ اسے زمین کا ایک ٹکڑا الاٹ کر دیا جاتا‘ یہ وہاں جیولین کی اکیڈمی بنا لیتا اور اپنے جیسے بچے تلاش کر کے ان کو ٹریننگ دیتا جب کہ ہم نے اسے بھکاری بنا دیا ہے۔ ٹریننگ کے لیے اس کے پاس پہلے بھی وسائل نہیں تھے اور اب بھی نہیں ہیں‘ یہ اب بھی کھیتوں میں نیزہ بازی کی پریکٹس کرے گا۔

جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ میری حکومت سے درخواست ہے آپ ملک کی تمام سرکاری سپورٹس آرگنائزیشنز ختم کر دیں‘ ملک کو کسی اسپورٹس بورڈ‘ وزیر یا وزارت کی ضرورت نہیں ہے‘ یہ سرمائے‘ توانائی اور وقت کا زیاں ہے‘ آپ اس کے بجائے یہ رقم ریکارڈ ہولڈرز‘ میڈل ہولڈرز اور چیمپیئنز کو دے دیں‘ یہ اپنی اپنی اکیڈمیز اور کلب بنائیں اور نئے کھلاڑیوں کو ٹریننگز دیں‘ کھلاڑی جب ایک خاص حد کو چھو لیں تو حکومت انھیں مقابلوں میں بھجوا دے اور اگر یہ کام یاب ہو جائیں تو حکومت کی طرف سے ان کے لیے انعامات اور اعزازات فکس ہوں‘ یہ انھیں خود بخود مل جائیں‘ حکومت کا اس میں کوئی عمل دخل ہی نہ ہو‘ آپ اس میں سنگاپور اور ہانگ کانگ کی مثال لے سکتے ہیں‘ یہ دونوں ملک اولمپکس میں گولڈ میڈل لینے والے کھلاڑیوں کو ایک ملین ڈالر دیتے ہیں اور بس‘ یہ کھلاڑیوں کو ارشد ندیم کی طرح چوم چوم کر نہیں مارتے۔

Back to top button