آئینی ترامیم کا پیکج: ناکامی کے ذمہ دار شہباز شریف کیوں ہیں  ؟

معروف لکھاری اور تجزیہ کار نصرت جاوید نے کہا ہے کہ عدالتی ترامیم کا مجوزہ پیکج پیش کرنے کرنے میں حکومتی ناکامی کی سب سے ذیادہ ذمہ داری وزیراعظم شہباز شریف پر عائد ہوتی ہے کیونکہ انہوں نے یہ حقیقت فراموش کر دی تھی کہ وہ ایک اتحادی حکومت چلا رہے ہیں اور وزارت عظمی کے لیے ووٹ حاصل کرنے کے بعد بھی اتحادی جماعتوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں نصرت جاوید کہتے ہیں کہ شہباز شریف کی وزارت عظمی بنیادی طور پر اسٹیبلشمنٹ اور پیپلز پارٹی کی مرہون منت ہے۔ لیکن بطور وزیراعظم ان کی بڑی ناکامی یہ رہی کہ انہوں نے اپنے سابقہ اتحادی اور پی ڈی ایم کے سابق سربراہ مولانا فضل الرحمن کو حکومتی اتحاد کے ساتھ ملانے کی کوشش نہیں کی۔ اب وہ اسی ایک کوتاہی کا خمیازہ بھگتتے نظر آ رہے ہیں کیونکہ مولانا فضل الرحمن نے حکومتی پیکج کی راہ میں رکاوٹ ڈال کر پوری شہباز حکومت کے لیے شرمندگی کا سامان پیدا کر دیا ہے۔ نصرت جاوید کہتے ہیں کہ وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد شہباز شریف کو یہ حقیقت ذہن میں رکھنی چاہیے تھی کہ ان کی جماعت کے پاس اپنے تئیں قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت میسر نہیں ہے اور انہیں کسی بھی وقت اقتدار سے محلاتی سازشوں کے ذریعے گھر بھیجا جاسکتاہے۔ ایسے عالم میں انہیں قومی اسمبلی کے ہر رکن سے مسلسل مشاورت درکار تھی اور ضروری تھا کہ وہ مولانا جیسے لوگوں کو بھی اتحادی بنانے کی کوشش کرتے۔ ایم کیو ایم جیسی دیگر اتحادی جماعتوں کو ہمہ وقت آن بورڈ رکھنا بھی ان کی ذمہ داری تھی۔ لیکن سیاسی امور پر توجہ مرکوز رکھنے کے بجائے شہباز شریف ایک ٹیکنو کریٹ کی طرح اپنے پسندیدہ افسروں کے ذریعے ”ٹاپ ڈاﺅن“ ماڈل پر مبنی ”گورننس“ متعارف کروانے میں مصروف ہو گئے۔ وہ بھول گئے کہ اتحادی حکومتیں سیاسی بصیرت سے چلتی ہیں، انتظامی بصیرت سے نہیں۔ شہباز صاحب نے ملکی سیاست کے چند تلخ حقائق کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ امید بھی باندھ لی کہ مشکل وقت میں بھائی لوگ ان کو سہارا فراہم کریں گے۔ اس سوچ کی وجہ یہ تھی کہ عمران خان بھی تو ”سیم پیج“ کی برکتوں سے اپنے اراکین اسمبلی کو مسلسل نظرانداز کرنے اور اپوزیشن جماعتوں کو دیوار سے لگانے کے باوجود تین سال سے زیادہ عرصے تک نہایت اطمینان سے حکومت چلاتے رہے تھے۔

اقتدار کے پجاری مولانا حکومتی پمپ سے ڈیزل ڈلوانے سے انکاری کیوں  ؟

تاہم نصرت جاوید کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی اپنی ترجیحات بھی ہوتی ہیں اور کوئی بھی سیاستدان فقط فوجی حمایت کے سہارے اقتدار میں نہیں رہ سکتا۔ اسے خلق خدا کو بھی اہمیت دینا ہوتی ہے اور ان کے مسائل کے حل فراہم کرنے کے علاوہ برسراقتدار جماعت کو ایک ”بیانیہ“ بھی تشکیل دینا پڑتا ہے۔ لیکن بھائی لوگوں کی حمایت اور افسر شاہی کی ذہانت پر کامل انحصار نے مسلم لیگ (نون) کو کسی بھی سیاسی جماعت کے لئے مطلوبہ توانائی سے قطعاً محروم کردیا ہے۔ اس کے برعکس ”قیدی نمبر 804“  کے حامی ایک طاقتور بیانیے سمیت اپنی جماعت کو مسلسل متحرک رکھے ہوئے ہیں۔ نصرت کہتے ہیں کہ ٹھوس سیاسی حقائق کے تناظر میں ہماری اعلیٰ عدالتوں کے چند عزت مآب ججوں نے عمرانی بیانیے کو فروغ دینے کا فیصلہ کیا۔ حکومت اس عدالتی رویے سے بوکھلا گئی اور روزانہ کی بنیاد پر اپنا تحفظ یقینی بنانے کی کاوشوں میں مصروف ہو گئی۔ مگر عدالتوں سے سہمی حکومت کیلئے رواں برس جولائی میں سپریم کورٹ کے 8 عزت مآب ججوں کی اکثریت نے یہ فیصلہ سنایا کہ تحریک انصاف کو 8 فروری 2024ء کے روز ملے ووٹوں کے تناسب سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں عورتوں اور اقلیتوں کے لئے مختص نشستیں فراہم کی جائیں۔ لیکن حکومت نے اس فیصلے پر عمل درآمد کے بجائے عدالتوں کو ایک بھاری بھر کم ”ریفارم پیکیج“  کے ذریعے ”درست“ سمت پر ڈالنے کی تیاری شروع کر دی۔ موجودہ عدالتی ڈھانچے کو حکومتی توقع کے مطابق ڈھالنے کے لئے آئین میں ترامیم درکار ہیں۔ لیکن قومی اسمبلی اور سینٹ میں دو تہائی اکثریت کے بغیر مطلوبہ ترامیم کا حصول ممکن نہیں۔ لیکن ہھر بھی حکومت اس کے حصول کے لیے ڈٹ گئی اور دونوں ایوانوں کے اجلاس بھی طلب کر لئے گئے۔ اس دوران یہ اطلاع سامنے آئی کہ حکومت کے ساتھ بیک ڈور ڈپلومیسی کے دوران مولانا فضل الرحمن نے آئینی ترامیم کے پیکج کی منظوری کے لیے اپنی حمایت کا یقین دلوا دیا ہے۔ تاہم پھر یہ انکشاف ہوا کہ حکومت نے تو مولانا کے ساتھ مجوزہ آئینی ترامیم کا مسودہ بھی شیئر نہیں کیا تھا، لہذا انہیں جیسے ہی یہ پتہ چلا کہ حکومت آئینی ترامیم کے ذریعے قاضی فائز عیسی کو چیف جسٹس برقرار رکھنا چاہتی ہے تو موصوف پی ٹی آئی کا جھنڈا لے کر میدان میں اتر آئے اور حکومتی منصوبے کی حمایت سے صاف انکار کر دیا۔ صدر اصف زرداری سے لے کر وزیراعظم شہباز شریف تک اور بلاول بھٹو سے لے کر نواز شریف تک سب نے مولانا فضل الرحمن کو منانے کی کوشش کی لیکن سب بے سود رہا۔ ایسے میں حکومت کو شدید شرمندگی اٹھاتے ہوئے قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاس ملتوی کرنا پڑ گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ شہباز شریف اپنے پرانے اتحادی مولانا فضل الرحمن کو منانے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں؟

Back to top button