اقتدار کے پجاری مولانا حکومتی پمپ سے ڈیزل ڈلوانے سے انکاری کیوں  ؟

ساری زندگی اقتدار کی سیاست کرنے اور ہر حکومت سے اپنا حصہ وصول کرنے والے مولانا فضل الرحمٰن نے اس مرتبہ اصرار کے باوجود اتحادی حکومت کا ڈیزل ڈلوانے سے انکار کردیا ہے جس کے بعد مجوزہ ترمیمی بل پاس کروانے کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا ہے کیوں کہ مولانا کی حمایت کے بغیر ایسا کرنا ممکن نہیں رہا تھا۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ عمران خان کی جانب سے مولانا ڈیزل کا خطاب پانے والے مولانا نے پی ڈی ایم کی اپنی سابقہ اتحادی جماعتوں پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کو ناراض کرتے ہوئے تحریک انصاف کا ہیرو بننے کو ترجیح دی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کل تک مولانا پر ڈیزل ڈیزل کی آوازیں کسنے والے تحریک انصاف کے لیڈرز اب پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر با آواز بلند مولانا فضل الرحمٰن کو اپنا ہیرو قرار دے رہے ہیں۔

تاہم ایک بات طے ہے کہ حالیہ مہینوں میں مولانا فضل الرحمٰن پاکستانی سیاست میں سب سے زیادہ ڈیمانڈ میں ہیں اور ملکی سیاست کی گاڑی مولانا کے دھکے کے بغیر آگے بڑھتی نظر نہیں آتی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت مولانا کی حمایت حاصل کرنے اور تحریک انصاف مولانا کو حمایت سے روکنے کے لیے کوشاں ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب پاکستانی سیاست میں کوئی بھی اہم پیش رفت نوابزادہ نصر اللہ خان کے بغیر نہیں ہو سکتی تھی جن پر نواز شریف اور بے نظیر بھٹو دونوں کا اعتماد تھا۔ نوابزادہ کے انتقال کے بعد یہ رول گجرات کے سینیئر سیاستدان چوہدری شجاعت نے اپنا لیا۔ کوئی جوڑ توڑ کرنا ہو، حکومت بنانی یا گرانی ہو، کوئی قانون منظور کروانا ہو تو چوہدری شجاعت متحرک ہوا کرتے تھے اور مطلوبہ نتائج بھی مل جایا کرتے تھے۔ تاہم چوہدری شجاعت کے ضعیف العمر ہو جانے کے بعد اب مولانا فضل الرحمٰن یہ رول اپناتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ ان کے سیاسی کیریئر کا پہلا موقع ہے کہ انہوں نے حکومت میں حصہ وصول کرنے کی بجائے اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے اور اسی وجہ سے وہ تحریک انصاف اور حکومتی اتحاد دونوں کی جانب سے ڈیمانڈ میں ہیں۔ ویسے بھی مولانا کی جماعت نے خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے اتنی مناسب تعداد میں نشستیں حاصل کرنا شروع کر دی ہیں کہ وہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں ایک فیصلہ کن قوت بن کر ابھرے اور اہم مواقع پر اپنے سیاسی وزن کے حساب سے فوائد حاصل کرتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ 2002 میں فوجی آمر پرویز مشرف کے زیر سایہ بننے والی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بنے تو اس کے بعد آنے والی پیپلز پارٹی کی حکومت، اور پھر نواز لیگ کی حکومت اور اس کے بعد 2022 میں بننے والی پی ڈی ایم کی حکومت کا بھی اہم حصہ رہے۔

اردو نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق سیاسی تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد اور پی ڈی ایم حکومت کی تشکیل میں بھی مولانا فضل الرحمٰن نے نواز شریف اور آصف علی زرداری کے ساتھ مل کر اہم کردار ادا کیا تھا۔ لیکن فروری 2024 میں انتخابات ہوئے تو مولانا فضل الرحمان مطلوبہ تعداد میں نشستیں حاصل نہیں کر سکے۔ دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ وہ صدر پاکستان کے عہدے پر فائز ہونا چاہتے تھے لیکن پاور شیئرنگ فارمولے کے تحت وزارت عظمی نواز لیگ اور صدارت پیپلز پارٹی کے پاس چلی گئی۔ ایسے میں انہوں نے حکومت کی مخالفت شروع کرتے ہوئے اپنے روایتی اتحادیوں کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ حکومت نہ بنائیں کیوں کہ ان سے زیادہ نشستیں ان کے مطابق ان کی حریف جماعت تحریک انصاف کے پاس تھیں۔

آئینی ترمیم کی عدم منظوری، مولانا، عجلت یا مِس ہینڈلنگ؟

تاہم مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کے مل کر حکومت بنالینے کے بعد بظاہر یوں لگ رہا تھا کہ اب مولانا فضل الرحمٰن حکومتی سیاست سے علیحدہ ہو کر کسی حد تک پس منظر میں رہیں گے۔ لیکن حکومت کی طرف سے حالیہ آئینی ترمیم لانے کے فیصلے کے بعد ان کی پاکستانی سیاست میں اہمیت ایک مرتبہ پھر بڑھ گئی اور وہ پھر سے سیاسی سرگرمیوں کا محور بن گئے۔ اس وقت حکومت کو آئینی ترامیم منظور کروانے کے لیے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے، جس کا مطلب ہے کہ اسے قومی اسمبلی میں 224 اور سینیٹ میں 64 اراکین کی حمایت درکار ہے اور مولانا فضل الرحمان اپنے 8 اراکین اسمبلی اور 5 سینیٹرز کے ساتھ ترپ کا پتہ ثابت ہو رہے ہیں۔ ایسے میں حکومت مولانا کی حمایت کے بغیر آئینی ترامیم منظور نہیں کروا سکتی، یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چند ہفتوں سے صدر آصف زرداری سے لیکر وزیر اعظم شہباز شریف تک حکومتی اتحاد کا ہر اہم شخص مولانا کے گھر کے چکر لگا رہا ہے۔

ایسی صورت حال میں اپوزیشن جماعت تحریک انصاف کی بھی کوشش ہے کہ مولانا کم از کم اس آئینی ترمیم پر حکومت کا ساتھ نہ دیں کیوں کہ ان کے خیال میں ترامیم منظور ہونے کی صورت میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی ممکنہ توسیع اور سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد میں اضافہ سیاسی طور پر ان کے حق میں نہیں ہو گا۔

حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے مولانا فضل الرحمٰن کی حمایت حاصل کرنے کی اس بے چینی نے انہیں ایک مرتبہ پھر پاکستانی سیاست کی فیصلہ کن شخصیت بنا دیا ہے اور اب مستقبل قریب کے سیاسی ماحول کی کنجی ان کے ہاتھ آ گئی ہے۔

کئی روز کی مشاورت اور ملاقاتوں کے بعد مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت کے مجوزہ آئینی ترامیم کے پیکج کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی میں مولانا نے واضح کر دیا کہ یہ ترامیم عجلت میں نہیں ہو سکتیں جس کے بعد حکومت کو اپنی پیش قدمی روکتے ہوئے غیر مہینہ مدت کےلیے پارلیمنٹ کے اجلاس ملتوی کرنا پڑگئے ہیں۔

مسلم لیگ نواز کے سینیئر رہنما اور وزیر دفاع خواجہ آصف نے اعتراف کیا ہے کہ ’مولانا فضل الرحمٰن کی حمایت نہ ملنے کی وجہ سے نمبرز پورے نہیں ہوسکے اور اب اتفاق رائے کے بعد یہ کوشش دوبارہ شروع کی جائے گی۔

دوسری طرف سوشل میڈیا تبصروں میں بھی مولانا فضل الرحمٰن چھائے ہوئے ہیں اور صارفین انہیں پاکستانی سیاست کا ایک ناگزیر حصہ قرار دے رہے ہیں۔

مبصرین کے مطابق پاکستانی سیاست کی کوئی بھی گاڑی مولانا فضل الرحمٰن کے دھکے کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی چونکہ ابھی انہوں نے حکومتی ڈیزل ڈلوانے سے انکار کر دیا ہے۔ تاہم حکومتی حلقے سمجھتے ہیں کہ مولانا زیادہ عرصہ ڈیزل کے بغیر نہیں چل سکتے اور وہ وقت دور نہیں جب وہ تحریک انصاف سے ٹھوکر کھا کر حکومتی پٹرول پمپ پر پہنچ جائیں گے۔

Back to top button