اسرائیل کے پیجر دھماکے: سائبر حملے کی نئی تاریخ کیسے رقم ہوئی؟

اسرائیل نے لبنان کی عسکری تنظیم حزب اللہ کے زیر استعمال پانچ ہزار سے زائد پیجرز کو ایک ہی وقت میں ٹینک شکن دھماکہ خیز مواد سے اڑا کر کامیاب سائبر حملوں کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے جس کی پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی۔ معلوم ہوا ہے کہ پیجرز میں 10 سے 20 گرام فوجی گریڈ کا ٹینک شکن دھماکہ خیز مواد فٹ کیا گیا تھا۔ ان پیجرز کو ایلفا نیومیرک ٹیکسٹ میسج کے ذریعے سگنل بھیج کر فعال کیا گیا جس کے بعد ان میں دھماکے ہوئے۔

1960 کی دہائی میں ایجاد ہونے والی پیجر نامی ڈیوائس کو 1980 کی دہائی میں عروج ملا تھا۔ پیجر ایک چھوٹی وائر لیس ڈیوائس کو کہتے ہیں جس کا استعمال موبائل فون سے قبل بہت ذیادہ عام تھاـ پیجر ڈیوائس کے ذریعے آپ چھوٹے ٹیکسٹ میسج بھیج سکتے ہیں اور وصول کر سکتے ہیں۔ ان کے ذریعے الرٹ بھی بھیجے جاتے ہیں۔ پیجر بذریعہ وائر لیس نیٹ ورک سگنل بھیجتا ہے اور اسے اب بھی اکثر اسپتال اور سکیورٹی کمپنیاں استعمال کیا کرتی تھیں۔

 تاہم موبائل فون کے وجود کے آنے کے بعد یہ ڈیوائس مفقود ہوتی چلی گئی۔ موبائل فون کے زمانے میں لبنان کی حزب اللہ نامی عسکری تنظیم اب بھی اس ڈیوائس کا استعمال اس لیے کر رہی تھی کہ اسرائیلی جاسوسی نظام موبائل اور وائرلس فونز ٹریک کر کے اس کے ٹھکانوں کا پتہ لگا لیتا تھا اور پھر میزائل داغ دیتا تھا۔ حزب اللہ کا خیال تھا کہ پیجر ڈیوائس کا استعمال موبائل فون سے بہت زیادہ محفوظ ڈیوائس ہے لیکن اسرائیل نے اس کا یہ اندازہ بھی غلط ثابت کر دیا۔

بتایا جاتا ہے کہ حزب اللہ کے پانچ ہزار سے زائد اراکین کے پیجرز کو ایک ہی وقت میں دھماکوں سے تباہ کرنے کا منصوبہ اسرائیلی وزیر اعظم کی منظوری سے بنایا گیا۔ اس مقصد کی خاطر اسرائیلی انٹیلی جینس ایجنسی نے یورپ سے لبنان امپورٹ ہونے والے پیجرز کو راستے میں روک کر ان میں وہ تباہ کن دھماکہ خیز مواد فٹ کر دیا جو کہ ٹینک شکن میزائلوں میں استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ ایک ہی وقت میں پانچ ہزار سے زائد پیجرز میں ہونے والے دھماکوں سے حزب اللہ کے تین ہزار سے زائد اراکین زخمی ہوئے اور 10 جاں بحق ہوگئے۔

عینی شاہدین کے مطابق پیجر پہلے انتہائی گرم ہوئے پھر دھماکے سے پھٹ گئے، زخمیوں کو زیادہ تر چہرے، پیٹ اور  بازوؤں پر زخم آئے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر اسرائیلی انٹیلیجنس ایجنسی حزب اللہ کے زیر استعمال پیجز کو جاسوسی کے لیے استعمال کر رہی تھی تو پھر انہیں تباہ کیوں کیا گیا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حزب اللہ کے کچھ اراکین کو یہ خبر مل چکی تھی کہ پیجرز کو یورپ سے لبنان امپورٹ کرنے کے دوران ان میں تبدیلی کی گئی تھی اور اب اسرائیل ان کے ذریعے حزب اللہ کی جاسوسی کر رہا ہے۔ ابھی اس حوالے سے حزب اللہ کی تحقیق جاری تھی کہ اسرائیل کو بھی علم ہو گیا کہ اس کا منصوبہ پکڑا گیا ہے لہذا پیجرز کو تباہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ پیجرز میں ٹینک شکن دھماکہ خیز مواد اسی لیے فٹ کیا گیا تھا کہ یہ پتہ لگانے کے بعد کہ کون سا پیجرر کس حزب اللہ کمانڈر کے زیر استعمال ہے، اسے دھماکے سے مارا جا سکے۔

امریکا نے لبنان میں پیجر دھماکوں سے اظہار لاتعلقی کردیا

حزب اللہ نے تسلیم کیا ہے کہ یہ پیجرز اس کے اراکین کے استعمال میں تھے اور ان کے پھٹنے سے اس کے کئی جنگجو جاں بحق ہوئے ہیں۔ حزب اللہ نے اسرائیل پر ’مجرمانہ جارحیت‘ کا الزام عائد کرتے ہوئے فوری انتقامی کارروائی کا عندیہ دیا ہے۔ لبنان کے وزیر اعظم نجيب ميقاتی نے بھی دھماکوں کا الزام اسرائیل پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ یہ حرکت ’لبنان کی سلامتی کی ایک سنگین خلاف ورزی ہے۔ دوسری طرف امریکہ نے اس واقعے سے لاتعلقی ظاہر کی ہے جب کہ تاحال اسرائیل نے ان الزامات پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔ پیجر دھماکوں کے بعد لبنان کے اسپتال زخمیوں سے بھرگئے ہیں،  200 زخمیوں کی حالت تشویش ناک ہے۔ حزب اللہ کے ایک عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر غیر ملکی خبررساں ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک ہی وقت میں پانچ ہزار سے زائد پیجرز میں دھماکے ہونا موجودہ جنگ کے دوران سکیورٹی کی بڑی ناکامی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حزب اللہ نے حالیہ ماہ لائے گئے پیجرز کے نئے ماڈل استعمال کر رہے تھے۔

خیال رہےکہ گزشتہ صدی میں پیجر دنیا بھر میں پیغام رسانی کے استعمال ہونے والی معروف ڈیوائس تھی۔ یہ تاروں کے بغیر برقیاتی لہروں کے ذریعے پیغام پہنچانے والی ڈیوائس ہے جس کے ذریعے تحریری اور صوتی پیغام بھیجا جاسکتا ہے۔ گزشتہ صدی کی آخری دہائی میں موبائل فون کی آمد کے ساتھ پیجر کا استعمال کم ہونا شروع ہوگیا اور رواں صدی میں اسمارٹ فونز کی آمد نے تو پیجر کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔ تاہم اب بھی اسے اکثر ممالک میں ایمرجنسی سروس اور سکیورٹی اداروں کے اہکار استعمال کررہے ہیں کیوں کہ جدید پیجر موبائل فونز کے مقابلے میں زیادہ محفوظ تصور کیے جاتے ہیں اور انہیں ٹریک کرنا ممکن نہیں ہوتا۔

Back to top button