آئینی ترمیم کی عدم منظوری، مولانا، عجلت یا مِس ہینڈلنگ؟

کئی دنوں کی سر توڑ کوششوں، اعلیٰ سطحی سیاسی رابطوں، نمبر گیم بارے بلند وبانگ دعووں اور پارلیمنٹ کے اجلاسوں کے اوقات میں تبدیلیوں کے باوجود وفاقی حکومت ‘متنازعہ‘ آئینی ترامیم منظور کرانے میں ناکام ہوگئی ہے۔عدالتی اصلاحات سے متعلق آئینی ترامیم پر کئی ہفتوں کی مسلسل کوشش کے باوجود مطلوبہ حمایت نہ ملنے کے بعد وفاقی حکومت فی الوقت پیچھے ہٹ گئی ہے اور یہ معاملہ پارلیمنٹ کے اگلے اجلاس تک مؤخر کر دیا گیا ہے۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آئینی ترمیم کی منظوری میں ناکامی کی اصل وجہ کیا ہے؟کیا حکومت کی اس ناکامی کی وجہ اس آئینی ترمیم کو عجلت میں لانا ہے، اس کی پیشگی تیاری نہ کرنا ہے یا پھر یہ پورا معاملہ ہی مس ہینڈل ہوا ہے؟

مبصرین کے خیال میں حکومت اس معاملے پر عجلت کے ساتھ ساتھ حد سے زیادہ خود اعتمادی کا شکار ہوئی ہے۔وہ کہتی ہیں ’حکومت کا خیال تھا کہ وہ مولانا فضل الرحمان کو بآسانی منا لیں گے اور جو ادارے حکومت کی مدد کر رہے ہیں وہ اس کام میں بھی حکومت کی مدد کریں گے لیکن مولانا فضل الرحمان نے اس مرتبہ مختلف سیاست کر کے دکھائی ہے۔‘’اس ناکامی کے پیچھے حکومت کی عجلت، غلط منصوبہ بندی اور حد سے زیادہ خود اعتمادی سب شامل ہے۔ اس سے حکومت کی سبکی ہوئی ہے لیکن ان کی بھی سبکی ہوئی ہے جن کا ان کو ساتھ حاصل ہے اور جن کا پریشر ہے۔‘تجزیہ کاروں کے بقول حکومت نے مولانا فضل الرحمان کو لبھانے کے لیے کئی پیشکشیں بھی کیں لیکن مولانا نے فوراً سے رضامندی ظاہر نہیں کی اور اپنی شرائط رکھیں۔’انہوں نے حکومت کے سارے پینترے الٹ دیے۔‘

مبصرین کے مطابق ’مولانا نے حکومت کا یہ خیال بھی غلط ثابت کر دیا کہ وہ ان پر مخصوص حلقوں سے پریشر ڈلوا کر اپنا کام نکال سکتی ہے۔ مولانا نے اس بات کا کھل کر اظہار کیا کہ وہ قاضی فائز عیسٰی کے فین نہیں ہیں۔ چیف جسٹس ان کے آدمی نہیں ہیں اور ان کی مدت میں توسیع نہیں ہونی چاہیے۔‘’مولانا یہ سمجھتے ہیں کہ 8 فروری کے بعد کے سیاسی حالات میں سب سے زیادہ نقصان انہوں نے اٹھایا اور اس کی ایک وجہ پی ڈی ایم اتحاد ہے، وہ تنہا رہ گئے۔ اسی لیے اب وہ اپنی طاقت دکھا رہے ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق حکومت کی عجلت اور حد سے زیادہ خود اعتمادی کی وجہ سے حکومت آئینی ترمیم منظور کروانے میں ناکام ہوئی۔’حکومت نے اگر یہ ترمیم منظور کروانی تھی تو انہیں دو تین ماہ پہلے اس کی تیاری شروع کرنی چاہیے تھی۔ سیاسی جماعتوں سے رابطے کرنے چاہیے تھے اور مسودے پر بحث کروانی چاہیے تھی۔‘’لیکن وہ ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کا شکار تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ مخصوص قوتیں جو پہلے نمبرز پورے کرتی تھیں وہ اس مرتبہ بھی نمبرز پورے کریں گی اور اس سلسلے میں مدد کریں گی لیکن یہ اندازے اس مرتبہ غلط ثابت ہو گئے۔‘سیاسی مبصرین کے مطابق ان ترامیم کی منظوری کے لیے وزیر اعظم شہباز شریف، مسلم لیگ کے صدر میاں نواز شریف اور صدر پاکستان آصف علی زرداری نے مولانا فضل الرحمان سے رابطہ کیا تھا، لیکن انہیں کوئی کامیابی نہیں مل سکی۔ ”مولانا فضل الرحمان کو جس طریقے سے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سیاست میں سائیڈ لائن کیا گیا وہ یہ دکھ ابھی تک نہیں بھولے اور انہوں نے اسی لیے حکومت اور اسٹیبلشنمنٹ کے سامنے اپنا خاموش احتجاج ریکارڈ کروایا ہے۔‘‘

 دوسری جانب سیاسی حلقوں میں آئینی ترمیم کی منظوری میں ناکامی کے بعد اب یہ سوال بھی زیر بحث ہے کہ متنازعہ آئینی ترامیم کا وہ مسودہ جس کی کاپی، اپوزیشن اور حکومتی اتحادیوں کے علاوہ خود حکومتی شخصیات کے پاس بھی نہیں تھی وہ آخر کہاں سے آیا تھا اور اس کا تخلیق کار کون تھا؟  سینئر صحافی اور تجزیہ کار نوید چوہدری کے بقول ان ترامیم کا ڈرافٹ مسلم لیگ ن کی حکومت کا نہیں لگتا: ”ہو سکتا ہے کہ یہ ڈرافٹ شاید طاقتور حلقوں نے انہیں بھیجا ہو۔‘‘ تاہم  حکومت اپنی ناکامی چھپانے کے لیے یہ عندیہ دے رہی ہے کہ ان ترامیم پر مزید اتفاق رائے پیدا کرنے کے بعد اسے پارلیمنٹ سے منظور کروایا جائے گا۔ میڈیا کی طرف سے آئینی ترامیم کے منظور نہ ہونے کے حوالے سے پوچھے جانے والے ایک سوال کے جواب میں اسٹیبلشمنٹ سے قربت رکھنے والے سینیٹر فیصل واڈا کا پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کا نام لیے بغیر کہنا تھا، ”نا اہل اور نکمے لوگوں سے یہی توقع کی جا سکتی تھی۔‘‘

Back to top button