جسٹس فائز عیسی اور جسٹس منصور کے مابین جنگ تیز کیسے ہو گئی

سپریم کورٹ کے 8 ججز کی جانب سے الیکشن کمیشن کو لکھے گے دھمکی آمیز خط سے نہ تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسی آگاہ تھے اور نہ ہی ڈپٹی رجسٹرار سپریم کورٹ کوئی اس حوالے سے اگاہ کیا گیا تھا جنہوں نے اب تصدیق کر دی یے کہ جسٹس منصور علی شاہ اور ان کے ساتھی ججز نے انہیں اس حوالے سے کچھ نہیں بتایا تھا۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ آفس نے اپنی ویب سائٹ پر 14 ستمبر کو مخصوص نشستوں کے کیس بارے وضاحتی حکم نامہ جاری کرنے پر حیرت کا اظہار کیا ہے، اس حکم نامے میں جسٹس منصور علی شاہ اور ان کے 7 ساتھی ججز نے اعلیٰ عدالت کے 12 جولائی کے فیصلے پر عمل درآمد نہ کرنے پر الیکشن کمیشن کی سرزنش کی تھی، اور دھمکی دی تھی کہ اسے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ دھمکی آمیز خط الیکشن کمیشن کو ایک ایسے وقت لکھا گیا جب اتحافی حکومت پارلیمنٹ میں عدلیہ سے متعلق آئینی ترامیم پیش کرنے جا رہی تھی اور اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافے کے بعد منصور علی شاہ اگلے چیف جسٹس آف پاکستان نہیں بن پائیں گے اور قاضی فائز عیسائی اپنے عہدے پر اگلے تین برس کے لیے برقرار رہیں گے۔

 سپریم کورٹ کے 14 ستمبر کے خط میں خبردار کیا گیا تھا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے سپریم کورٹ کے حکم نامے پر عمل نہ کرنے کے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔ اس حکم نامے پر سپریم کورٹ کے 8 ارکان نے دستخط کیے، جن میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید، اور جسٹس عرفان سعادت شامل ہیں۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سپریم کورٹ کے دھمکی آمیز خط کو سختی سے رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے اور اسے اسے ایسے اوچھے ہتھکنڈوں سے ڈرایا دھمکایا نہیں جا سکتا۔ الیکشن کمیشن کا موقف تھا کہ نہ تو ابھی تک سپریم کورٹ نے اس کیس میں اپنا تفصیلی فیصلہ جاری کیا ہے اور نہ ہی اس فیصلے کے خلاف دائر کردہ نظر ثانی پٹیشنز کے حوالے سے کوئی کارروائی ہوئی ہے، الیکشن کمیشن نے اپنے رد عمل میں مزید کہا تھا کہ اس نے کبھی بیرسٹر گوہر خان کو تحریک انصاف کا چیئرمین تسلیم نہیں کیا کیونکہ تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشنز پر الیکشن کمیشن کا فیصلہ آنا باقی ہے، لہذا سپریم کورٹ کا یہ کہنا غلط ہے کہ الیکشن کمیشن بیرسٹر گوہر کو پی ٹی آئی کا چیئرمین تسلیم کر چکا ہے۔

قاضی فائز عیسی کی جانب سے 8 ججز کے الیکشن کمیشن کے نام خط کا نوٹس لیے جانے کے بعد سپریم کورٹ کے ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل نے ایک دفتری نوٹ میں حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ججز کا 14 ستمبر کا وضاحتی حکم نامہ کیسے سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیا جا سکتا ہے، جب کہ سپریم کورٹ کی طرف سے نہ تو کوئی کاز لسٹ جاری کی گئی تھی اور نہ ہی کوئی نوٹس جاری کیے گئے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 8 ججز کا وضاحتی حکم نامہ رات 8 بجے تک سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر بھی موجود نہیں تھا اور صبح تک قاضی فائز عیسی کو بھی اس حوالے سے علم نہیں تھا۔ باخبر ذرائع کے مطابق چیف جسٹس عیسی کے علم کے بغیر ہی سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر 8 ججز کا ایک حکم نامہ عدلیہ کی اندرونی جنگ کو واضح کرتا یے جو کہ جسٹس منصور علی شاہ اور قاضی فائز عیسی کے مابین جاری ہے۔

یاد ریے کہ سپریم کورٹ کے 8 ججز کے حکم نامے میں وضاحت کی گئی تھی کہ 80 ایم این ایز میں سے واپس آنے والے 41 لوگ پی ٹی آئی کے ہی امیدوار تھے۔ 12 جولائی کے حکم نامے میں ای سی پی سے تصدیق کرنے کو کہا گیا تھا کہ آیا ان 41 آزاد لوگوں کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے۔ اسکے علاوہ ان 41 ارکان کو 15 دن کے اندر اس وضاحت کے ساتھ اپنے بیان جمع کروانے کا حکم دیا گیا تھا کہ انہوں نے 8 فروری کے الیکشن ایک مخصوص سیاسی جماعت کے امیدوار کے طور پر لڑے تھے۔تحریری حکم میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن وضاحت کے نام پر اپنی پوزیشن تبدیل نہیں کر سکتا، اور اسکے فیصلے کی روشنی میں پارٹی سرٹیفکیٹ جمع کرانے والے پی ٹی آئی کے کامیاب امیدوار ہیں، سپریم کورٹ کے 8 ججز نے اپنے تازہ پریس لیز نما حکم نامے میں کہا ہے کہ انکا 12 جولائی 2024 کا فیصلہ واضح ہے اور اسکا اطلاق قومی اور صوبائی اسمبلیوں پر بھی ہوگا۔ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو فیصلے پر فوری عملدرآمد کی ہدایت کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ عدالتی فیصلے پر عمل میں تاخیر کے نتائج ہو سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ 12 جولائی کو اپنے مختصر حکم میں سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے کیس میں پشاور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستوں کا حقدار قرار دیا تھا۔
رواں سال 14 مارچ کو پشاور ہائی کورٹ کے 5 رکنی لارجر بنچ نے متفقہ طور پر سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں نہ ملنے کے خلاف درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔ چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 13 رکنی فل بینچ نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دے دیا، فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ کی جانب سے لکھا گیا تھا۔

Back to top button