پاکستانی فوجی قیادت کے امریکہ میں داخلے پر پابندی کا بل پیش

تحریک انصاف کی کوششوں کے نتیجے میں امریکی کانگریس میں عمران خان کی رہائی اور جمہوریت کی بحالی سے متعلق ایک بِل پیش کر دیا گیا ہے جس میں پاکستانی عسکری قیادت کی امریکہ آمد پر پابندی کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
امریکی ایوان نمائندگان کے رپبلکن رکن جو ولسن اور ڈیموکریٹ رکن کانگریس جیمز ورنی پنیٹا نے ’پاکستان ڈیموکریسی ایکٹ‘ کے عنوان سے یہ بِل پیش کیا ہےجس میں درج ہے کہ ایسی مخصوص شخصیات پر پابندی عائد کی جائے جو پاکستان میں سیاسی حریف کو قید کرنے اور اسکے خلاف انتقامی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ اِس بِل کے حوالے سے رپبلکن رکن ولسن کا مطالبہ ہے کہ ’ویزے پر پابندی کے ذریعے پاکستانی فوجی قیادت پر دباؤ ڈالا جائے تا کہ وہاں جمہوریت کی بحالی اور عمران خان کی رہائی ممکن ہو سکے۔ امریکی ایوان نمائندگان میں اس بل کے پیش کیے جانے پر پاکستانی دفتر خارجہ نے ابھی تک کوئی رد عمل نہیں دیا۔گذشتہ ہفتے امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان ٹیمی بروس نے عمران خان کی قید پر تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکی انتظامیہ دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتی ہے۔
یاد ریے کہ جب ٹرمپ امریکہ کے صدر بنے تو میں پی ٹی آئی کے حامیوں کو امید تھی کہ وہ عمران خان کی رہائی کے لیے پاکستانی فیصلہ سازوں پر دباؤ ڈالیں گے۔ تاہم ٹرمپ نے صدارت سنبھالنے کے بعد پاکستان کے اندرونی معاملات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا اور نہ ہی انھوں نے عمران سے متعلق کوئی بات کی۔ کانگریس سے اپنے پہلے خطاب میں انھوں نے پاکستان کا ذکر ضرور کیا لیکن یوتھیوں کی امیدوں کے برعکس انہوں نے داعش کے ایک مطلوب ترین دہشت گرد کی گرفتاری میں مدد پر پاکستانی حکومت کا شکریہ ادا کیا۔
دوسری جانب امریکی ایوان نمائندگان میں پیش کیے جانے والے ’پاکستان ڈیموکریسی ایکٹ‘ نامی بل میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ملک کی عسکری اور حکومتی قیادت کے لیے امریکی ویزوں کا اجرا روکنے کا کہا گیا ہے۔ بل میں کہا گیا ہے کہ ’جب جنرل عاصم منیر عمران خان سمیت سیاسی کارکنان کو رہا کر دیں تو پھر یہ پابندی اٹھائی جا سکتی ہے۔‘ اپنے ایک ٹویٹ میں اس بل سے متعلق کانگریس کے رکن جو ولسن نے لکھا کہ اس میں یہ واضح ہے کہ ’پاکستان میں جمہوریت کی بحالی امریکہ کی پالیسی ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ کانگریس میں پیش کیے جانے والا یہ بل پاکستان کے آرمی چیف جنرل ’عاصم منیر پر ایک ماہ کے اندر پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ ان کے مطابق اس بل میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ’تمام جرنیلوں اور سرکاری حکام اور ان کے اہل خانہ پر بھی پابندی عائد کرنے کا جائزہ لیا جائے۔‘
یاد رہے کہ جو ولسن ایوان کی خارجہ امور اور آرمڈ سروسز کی کمیٹیوں کے ایک اہم رکن ہیں۔ وہ رپبلکن پالیسی کمیٹی کے سربراہ بھی ہیں۔ جوولسن کو امریکی صدر ٹرمپ کا قریبی دوست سمجھا جاتا ہے۔ انکے ساتھ دوسرے کانگرس کے رکن ڈیموکریٹ جیمز ورنی پنیٹا ہیں جو امریکی بحریہ کے سابق انٹیلجنس افسر رہ چکے ہیں۔ جو ولسن کچھ عرصے سے امریکہ میں تحریک انصاف چیپٹر کے ایما پر عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کرتے آ رہے ہیں۔
جو ولسن نے رپبلکن سٹڈی کمیٹی کے سربراہ آگسٹ پلگر کے ساتھ مل کر گذشتہ ماہ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کو خط لکھ کر مطالبہ کیا تھا کہ وہ عمران خان کی رہائی کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان کی فوجی قیادت سے بات کریں۔ جو ولسن گزشتہ چند ہفتوں کے دوران سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر کئی پوسٹس میں عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کرتے رہے ہیں، بانی پی ٹی آئی اگست 2023 سے متعدد مقدمات میں گرفتار ہیں، جنھیں وہ ’سیاسی قیدی‘ قرار دیتے ہیں حالانکہ پانی پی ٹی ائی کے خلاف بنیادی طور پر کرپشن کے کیسز درج ہیں جن میں سے ایک میں انہیں سزا بھی ہو چکی ہے۔
تاہم سیاسی تجزیہ کاروں نے جو ولسن کی جانب سے پیش کردہ پابندیوں کے بل کو ایک انفرادی عمل قرار دیا ہے جس کا ٹرمپ سرکار سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ سینیئر صحافی نصرت جاوید کا کہنا ہے کہ ’یہ خبر پی ٹی آئی کے لیے اطمینان کا باعث تو ہے‘ مگر اس خوشی کی انھیں کوئی منطق سمجھ نہیں آتی۔ ان کی رائے میں ’یہ ایک انفرادی فعل ہے اور ایسی کسی مجوزہ پابندی کا امکان بھی دور دور تک نظر نہیں آ رہا ہے۔‘ ان کی رائے میں اس قانون سازی پر جاری لابنگ حکومت کے لیے کسی پریشانی کا باعث نہیں بن سکتی ہے۔
امریکی تھنک ٹینک ولسن سینٹر کے جنوبی ایشیا انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگلمین نے ایکس پر لکھا ہے کہ ’پاکستان کے بارے میں امریکی قانون سازی کا ایک اہم ترین حصہ آج متعارف کرایا گیا ہے۔‘ ان کے مطابق ’اس بل میں ایسے اقدامات کا مطالبہ کیا گیا ہے جو پاکستانی آرمی چیف جنرل عاصم منیر پر امریکی پابندیوں کا باعث بن سکتے ہیں۔ ان کے مطابق ’اس بل کا قانون بننے کے امکانات بہت کم ہیں، لیکن یہ پاکستان کی قیادت کو خوفزدہ کر دے گا۔‘ امریکہ میں پاکستان کی سابق سفیر عابدہ حسین کے مطابق اگر حکومت پاکستان امریکی ایوان نمائندگان میں پیش کردہ پابندیوں سے متعلق بل نوٹس کا لینا چاہے تو لے سکتی ہے وگرنہ یہ ضروری نہیں ہے۔ انھوں نے کہا مجھے نہیں لگتا کہ پاکستانی حکومت اس ’سٹیج‘ پر عمران کو رہا کرے گی۔‘ عابدہ کی رائے میں اس قانون سازی سے بظاہر امریکی حکومت کا کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی امریکہ اس پر کوئی ردعمل دے گا۔ لیکن انھوں نے کہا کہ واشنگٹن میں پاکستانی سفارتکاروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان مخالف لابی کرنے والے اراکین کانگرس پر نظر رکھیں اور انہیں کاؤنٹر کرنے کے لیے حکمت عملی ترتیب دیں۔
یاد رہے کہ عمران خان کی رہائی سے متعلق اس سے قبل بھی امریکہ میں ایسے مطالبات سامنے آتے رہے ہیں۔ امریکی ایوان نمائندگان کے 60 سے زائد ڈیموکریٹک قانون سازوں نے سابق صدر جو بائیڈن کو لکھے گئے ایک مشترکہ خط میں ان پر زور دیا تھا کہ وہ عمران خان کی رہائی کے لیے پاکستانی حکومت پر واشنگٹن کا اثرو رسوخ استعمال کریں۔ اس خط میں قانون سازوں نے لکھا تھا کہ آپ عمران خان سمیت سیاسی قیدیوں کی رہائی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں روکنے کے لیے پاکستانی حکومت پر امریکہ کا اثرورسوخ استعمال کریں۔ تاہم صدر بائیڈن نے اس خط کا کوئی نوٹس نہیں لیا تھا۔