جیل میں عمران سے ملنے والے امریکیوں کی ملاقات کیوں ناکام ہوئی ؟

معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار جاوید چوہدری نے کہا ہے کہ عمران خان کا سوشل میڈیا بریگیڈ اس وقت ایک ہی ایجنڈے پر کام کر رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ ان کا کپتان کسی صورت جیل سے باہر نہ آئے۔ خان کے سوشل میڈیا جنگجو آگ پر مسلسل تیل پھینک رہے ہیں، ان کی زندگی کا صرف ایک مقصد ہے کہ خان جیل میں رہے تاکہ ان کی سیاست اور وی لاگ چلتے رہیں۔ یہ لوگ اس نیک کام کے لیے روزانہ بارود کا نیا ذخیرہ جمع کرتے رہیں جس کا صرف ایک ہدف ہوتا ہے اور وہ ہے عمران خان، چنانچہ پی ٹی آئی ان لوگوں کے ہاتھوں یرغمال بن چکی ہے اور ان کی موجودگی میں نہ تو پارٹی چل سکتی ہے اور نہ ہی خان۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ عمران خان اور ریاست کے درمیان دوریاں ختم کرنے کی کوششیں تین کرداروں کے گرد گھومتی ہیں‘ پہلے کردار کا نام چوہدری تنویر احمد ہے‘ یہ سیالکوٹ سے تعلق رکھتے ہیں‘ 1988میں امریکا گئے‘ ریستوران کا بزنس شروع کیا‘ اللہ نے کرم کیا اور ان کا شمار چند برسوں میں خوش حال امریکن پاکستانیوں میں ہونے لگا‘ تنویر ہیوسٹن میں رہتے ہیں‘ اپنی فوڈ چین چلاتے ہیں اور ٹرانسپورٹیشن کمپنی کے مالک بھی ہیں‘ امریکا اور پاکستان دونوں ملکوں میں ویلفیئر کے کام کرتے ہیں‘ عمران خان کے ساتھ ان کی پرانی دوستی ہے۔

عمران  خان نے انھیں 2019  میں نارتھ امریکا میں پارٹی کا ڈپٹی سیکریٹری بھی بنایا تھا لیکن یہ کیوں کہ سچے‘ کھرے اور منہ پر بات کرنے والے انسان ہیں لہٰذا یہ عہدہ زیادہ دیر تک ان کے پاس نہ ٹک سکا‘ شوکت خانم اور پی ٹی آئی دونوں کے پرانے ڈونرز ہیں‘ یہ پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کے بعد بھی خان سے رابطے میں رہے‘ ان کو خان کی جارحانہ سیاست پر ہمیشہ اعتراض رہا‘ ان کا خیال تھا کہ پارٹی کو سیاسی جماعت بننا چاہیے، باغی گروپ نہیں‘ تنویر نے عمران خان کو مسلسل سمجھایا کہ ’’آپ غلط سائیڈ پر چل نکلے ہیں‘ اور اسکا آپ کو نقصان ہو گا‘ انکا موقف تھا کہ احتجاج کی سیاست سے آج تک کسی جماعت کو فائدہ نہیں ہوا‘ لہٰذا آپ الیکشن پر فوکس کریں‘ اور پارلیمنٹ کے اندر بیٹھ کر مخالفین کا مقابلہ کریں‘ لیکن خان نہیں مانے۔

جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ قصہ مختصر، پی ٹی آئی کے احتجاج چلتے رہے یہاں تک کہ 9 مئی کو خان کو گرفتار کر لیا گیا اوریوں پارٹی پر سختیاں بڑھنے لگیں۔

 یہ سختیاں الیکشن کے بعد بھی قائم رہیں‘ اس مشکل وقت میں  چوہدری تنویر احمد نے عمران خان کے لیے حیران کن کام کیا‘ لیکن میں اس سے قبل آپ کو دوسرے دونوں کرداروں کے بارے میں بھی بتاتا چلوں۔ دوسرا کردار عاطف خان ہیں‘ یہ بھی ہیوسٹن میں رہتے ہیں‘ عمران خان کے دوست اور پارٹی عہدیدار ہیں‘ نیلامی میں اشیاء خرید کر ایکسپورٹ کرتے ہیں‘ یہ بھی خوش حال امریکن پاکستانی ہیں‘ پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا سکواڈ بھی یہی چلاتے ہیں‘ پارٹی کی سوشل میڈیا ٹیم کے کپتان جبران الیاس امریکا میں عاطف خان کے پاس رہائش پذیر ہیں‘یہ ان کی حفاظت بھی کر رہے ہیں‘ امریکا میں پاکستانی ڈاکٹر بہت خوش حال اور بااثر ہیں‘ ان کی اکثریت عمران کی طرف جھکاؤ رکھتی ہے‘ عاطف خان پارٹی اور ڈاکٹروں کے درمیان بڑا رابطہ ہیں‘ ڈاکٹروں کی صحبت کی وجہ سے لوگ انھیں بھی ڈاکٹر سمجھتے ہیں جب کہ یہ خود ڈاکٹر نہیں ہیں۔

جاوید چوہدری کے مطابق تیسرا کردار سردار عبدالسمیع ہیں‘ یہ جنرل ضیاء الحق کے صاحب زادے اور سیاست دان اعجاز الحق کے دوست ہیں اور یہ بھی امریکا میں کاروبار کرتے ہیں۔ ہم اب اصل کہانی کی طرف آتے ہیں‘چوہدری تنویر احمد پاکستان میں ویلفیئر کے پروجیکٹ کرتے رہتے ہیں‘ 2023 میں انھوں نے نیسٹ یونیورسٹی کو غریب طالب علموں کی تعلیم کے لیے 9 ملین ڈالرز کا ڈونیشن دیا‘ یہ خبر اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز پر نشر ہوئی جس کے بعد اعجاز الحق کے ذریعے ان کا آرمی چیف سے رابطہ ہوا اور دسمبر 2023 میں ان کی جنرل عاصم منیر سے واشنگٹن میں ملاقات ہوئی۔ یہاں سے ان کوششوں کا آغاز ہوا جس پر اس وقت پی ٹی آئی کے ٹرولرز اور یوٹیوبرز ماتم کر رہے ہیں۔چوہدری تنویر احمد نے عاطف خان کو سمجھایا بانی کو سوشل میڈیا اور یوٹیوبرز جیل تک لے گئے ہیں‘ہم نے اگر کوشش نہ کی تو خان کی پوری زندگی جیل میں ضائع ہو جائے گی‘ ہمیں چاہیے ہم آگے بڑھ کر کوئی درمیان کا راستہ نکالیں‘ اس سے خان بچ جائے گا اور ملک بھی بدنام نہیں ہوگا‘چوہدری تنویر احمد کا موقف تھا امریکا میں پوری دنیا کے لوگ موجود ہیں لیکن ہمارے علاوہ کوئی کمیونٹی اپنے آبائی ملک کے خلاف کمپیئن نہیں کرتی‘ دنیا کے تمام ملکوں کے اندر مسائل موجود ہیں لیکن کسی ملک کے باشندے اقوام متحدہ‘ وائیٹ ہاؤس اور سڑکوں پر اپنے ملک کے خلاف نعرے نہیں لگاتے جب کہ ہم امریکا میں اپنے ملک کی بے عزتی کر رہے ہیں جس کا نقصان ملک کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی ہو رہا ہے لہٰذا ہمیں آگ بجھانے والوں کا کردار ادا کرنا چاہیے‘ آگ بھڑکانے والوں کا نہیں۔ یہ ڈائیلاگ کار گر ثابت ہوا اور چوہدری تنویر احمد اور خان کے امریکی پاکستانی دوستوں نے پل کا کردار ادا کرنا شروع کر دیا۔

جاوید چوہدری کے بقول تنویر احمد نے ریاستی اداروں کو بھی قائل کر لیا کہ آپ ہمیں موقع دیں ہم عمران کو سمجھا کر درمیان کا راستہ نکالتے ہیں۔ انھیں بتایا گیا اسٹیبلشمنٹ خان سے کسی قسم کے مذاکرات نہیں کرے گی ہاں البتہ آپ اگر پی ٹی آئی اور حکومت کو ساتھ ساتھ بٹھا سکتے ہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا‘ یہ ایک بڑی رعایت اور موقع تھا چناں چہ تنویر احمد اور سردار عبدالسمیع نے اکتوبر اور نومبر 2024میں جیل میں بانی سے متعدد ملاقاتیں کیں اور ان کے نتیجے میں معاملات بڑی حد تک سیٹل ہو گئے‘ بشریٰ بی بی بھی ان ڈائیلاگ کے نتیجے میں جیل سے رہا ہوئیں لیکن پھر اچانک پی ٹی آئی نے 24 نومبر کے لانگ مارچ کا اعلان کر دیا‘ اس کی وجہ ڈونلڈ ٹرمپ تھے‘ ٹرمپ الیکشن جیت گیا اور اس کے بعد پی ٹی آئی کو محسوس ہوا ٹرمپ آنے والے دنوں میں ہمارے لیے لائف لائن ثابت ہو گا چناں چہ خان نے اپنے سارے انڈے ٹرمپ کی ٹوکری میں ڈال دیے اور یہ سیٹل منٹ کے وعدے سے پیچھے ہٹ گیا‘ یہ چوہدری تنویر احمد اور ان کے ساتھیوں کے لیے حیران کن تھا‘ انھیں خان کے پیچھے ہٹنے کی ہرگز توقع نہیں تھی لیکن یہ ہوا اور یوں ان کی سال بھر کی محنت ضائع ہو گئی۔

 بہرحال قصہ مختصر، 24 نومبر کا احتجاج بری طرح ناکام ہوا اور ٹرمپ کا کارڈ بھی خان کے حق میں استعمال نہ ہو سکا۔ خان نے دوبارہ تنویر خان  کی طرف دیکھنا شروع کر دیا۔ یوں فروری 2025 میں سیٹلمنٹ کی ایک اور کوشش شروع ہوئی۔ تنویر احمد کے ذریعے امریکا کے تین پاکستانی ڈاکٹروں نے آرمی چیف کے دفتر سے رابطہ کیااور خان کے معاملے میں آرمی چیف سے ملاقات کی درخواست کی‘ انھیں جواب دیا گیا آرمی چیف سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرتے‘ آپ ڈی جی آئی سے ملاقات کر لیں‘ انھیں یہ بھی بتایا گیا پی ٹی آئی نے اگر کوئی سیاسی ڈائیلاگ کرنا ہے تو یہ حکومت کے ساتھ ہی ہو سکیں گے‘ بہرحال قصہ مزید مختصر اس وفد کی مارچ کے دوسرے مہینے میں اسٹیبلشمنٹ کے دوسرے پاور فل عہدیدار سے ملاقات ہو گئی۔ اس ملاقات میں ڈاکٹر منیر خان‘ ڈاکٹر عثمان ملک‘ ڈاکٹر سائرہ بلال‘ چوہدری تنویر احمد اور سردار عبدالسمیع شامل تھے‘ وفد میں شامل تینوں ڈاکٹرز عمران کے دوست ہیں‘ یہ پارٹی میں بھی شامل ہیں‘ ان کی اڑھائی گھنٹے ملاقات ہوئی‘ ملاقات میں فیصلہ ہوا اگر پی ٹی آئی مذاکرات کے لیے رضا مند ہے تو یہ حکومت سے رابطہ کرے‘ اسٹیبلشمنٹ اسے خوش آمدید کہے گی‘ انھیں یہ بھی بتایا گیا عمران اگر واقعی سیریس ہیں تو پھر انھیں اپنے سوشل میڈیا کو لگام دینا ہو گی‘ سوشل میڈیا اور یوٹیوبرز کی نفرت کے ساتھ مذاکرات اور معاملات نہیں چل سکتے‘ عمران خان کے دوستوں نے اتفاق کیا اور خان کو سمجھانے کا وعدہ کیا‘ ان لوگوں نے بعدازاں جیل میں عمران خان سے ملاقات بھی کی۔

بلوچستان میں ریاست کی رٹ خاتمے کی جانب کیوں گامزن ہے ؟

بقول جاوید چوہدری، یہ ایک بڑا بریک تھرو تھا لیکن اس بریک تھرو کو بھی سوشل میڈیا اور عمران خان کے مہربان یوٹیوبرز نگل گئے‘ رہی سہی کسر جعفر ایکسپرس کی ہائی جیکنگ پر پارٹی کے رویے نے پوری کر دی‘ یہ ملاقات جعفر ایکسپریس کی ہائی جیکنگ کے دوران ہوئی تھی اور پاکستان تحریک انصاف کا سوشل میڈیا باقاعدہ بی ایل اے کو سپورٹ کر رہا تھا‘ عمرانی وفد نے بعدازاں عمران کو سمجھایا ‘ انھیں مذمت کا مشورہ بھی دیا گیا لیکن عمران نے وعدے کے باوجود نہ تو ٹرین کے اغواء کی مذمت کی اور نہ افواج پاکستان کی سوشل میڈیا ٹرولنگ رکوائی‘ اس سے مذاکرات کی کوشش کو بھی ٹھیک ٹھاک دھچکا لگ گیا‘ رہی سہی کسر پارٹی کے مہربان یوٹیوبرز نے پوری کر دی۔ یوں یہ بڑا بریک تھرو بھی سوشل میڈیا کے گٹر میں گھل کر ضائع ہو گیا اور ایک بار پھر یہ ثابت ہو گیا عمران خان کی ضد اور سوشل میڈیا کی نفرت دونوں نے مل کر ان کی سیاسی قبر کھود دی ہے ‘ یہ بھی ثابت ہو گیا پی ٹی آئی میں ایک بھی ایسا سمجھ دار شخص نہیں جو معاملات کو سلجھا سکے۔

 یہ سب لوگ آگ میں تیل پھینکنے والے ہیں اور ان کی زندگی کا صرف ایک مقصد ہے خان جیل میں رہے تاکہ ان کی سیاست اور وی لاگ چلتے رہیں۔

Back to top button