حامد میر کو آف ائیر کروانے والے اب اور کیا چاہتے ہیں؟


صحافیوں کے حقوق کی عالمی تنظیم رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرزیا آر ایس ایف نے ‘جیو نیوز’ سے وابستہ سینئر صحافی اور اینکر حامد میر کو حالاتِ حاضرہ کے پروگرام کی میزبانی سے آف ایئر کرنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے آزادی اظہار پر ایک کاری وار قرار دیا ہے۔تنظیم کا کہنا ہے کہ ایسے اقدامات کے نتیجے میں وقت کے ساتھ ساتھ ملک میں آمرانہ ماحول پروان چڑھ رہا ہے جس سے نہ صرف پاکستان کی ساکھ خراب ہو رہی ہے بلکہ صحافیوں کی مشکلات میں بھی اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ تاہم دوسری جانب حامد میر کو آف ائیر کروانے میں مرکزی کردار ادا کرنے والے جیو کے چھوٹے سیٹھ کے آب بارہ ہیڈکوارٹر جاکر اپنے مفتوحین کی قدم بوسی کرنے اور شاباش وصول کرنے کی اطلاعات ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ چھوٹے سیٹھ کو طلب نہیں کیا گیا تھا بلکہ انہوں نے جذبہ خیر سگالی کے تحت 3 جون کو خفیہ ادارے کے ایک سینئر ترین افسر سے ملاقات کی۔
یاد رہے کہ جیو نیوز کی انتظامیہ نے اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ پر حامد میر کو ان کے پروگرام کی میزبانی سے اس بنا پر ہٹا دیا ہے کہ انہوں نے آرمی آباد میں ایک صحافی پر حملے کے خلاف ہونے والے احتجاج میں ریاستی اداروں پر کڑی تنقید کی تھی۔ حامد میر کا کہنا تھا کہ اگر صحافیوں پر حملوں کا سلسلہ بند نہ ہوا تو پھر میڈیا والے بھی ان حملوں کے ذمہ داران کے اصل چہرے بے نقاب کر دیں گے۔ حالانکہ حامد میر نے یہ تقریر جیو ٹی وی پر نہیں بلکہ اسلام آباد پریس کلب کے باہر کی تھی لیکن پھر بھی جیو کی انتظامیہ نے ان کے خلاف یک طرفہ کارروائی کرتے ہوئے انہیں آف ائیر کر دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اپنی تقریر میں حامد میر نے نہ تو کسی فرد کا نام لیا تھا اور نہ ہی کسی ادارے کا لیکن چونکہ چور کی داڑھی میں تنکا ہوتا ہے اس لیے پاکستان کی طاقتور خفیہ ایجنسی نے جیو نیوز کی انتظامیہ پر دباؤ ڈال کر انہیں ان کے پروگرام سے علیحدہ کروا دیا۔ حامد میر کے خلاف اس ایکشن کے بعد انہیں ملک بھر کے صحافتی تنظیموں کی جانب سے بھرپور حمایت ملی ہے اور جیو نیوز کی انتظامیہ کے یکطرفہ فیصلے کی ملک گیر مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔ دوسری جانب اسٹیبلشمنٹ کے ایما پر پیشہ کرنے والی چند بدنام زمانہ صحافتی طوائفوں نے بھی حامد میر کے خلاف پروپیگنڈہ مہم شروع کر رکھی ہے اور ان کے خلاف غداری کے کیسز درج کروانے کے لیے عدالت اور تھانوں سے رجوع کیا جا رہا ہے۔
حامد میر کو آف ائیر کرنے کے فیصلے کے بعد انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا تھا کہ اسد طور پر حملے کے بعد حامد میر کی جانب سے حملہ آوروں کے احتساب کا مطالبہ کرنے پر انہیں سزا دی گئی ہے۔ تنظیم کے مطابق اس طرح کے فیصلوں سے پاکستان کے موجودہ جابرانہ ماحول میں اظہار رائے کی آزادی کی ذمہ داری اٹھانے والے صحافتی اداروں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا تھا کہ صحافیوں کے لیے ان کی نوکریوں کی قیمت سینسرشپ، ہراسانی اور جسمانی تشدد نہیں ہونی چاہئیے۔ اس سے پہلے امریکہ میں صحافیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نے بھی حامد میر کا پروگرام بند کرنے کے فیصلے کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے آزادی صحافت کا گلا گھونٹنے کے مترادف قرار دیا تھا۔
اب رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز ایشیا پیسفک کے سربراہ ڈینئل نے کہا ہے کہ یہ ایک افسوس ناک بات ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا ہاؤس جیونیوز نے اپنے ادسرے کے اہم ترین صحافی کو صرف اس بنا پر آف اسکرین کر دیا ہے کہ انہوں نے اپنے ساتھی صحافی پر گھر۔میں گھس کر حملے کی مذمت کی تھی اور ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس طرح کے اقدامات پاکستان میں صحافیوں کو درپیش سنگین خطرات اور مشکلات کی نشاندہی کرتے ہیں۔
دوسری جانب جنگ گروپ کے ایک ترجمان نے اپنے بھونڈے فیصلے کے دفاع میں کہا تھا کہ گروپ اور اس کے ایڈیٹرز کے لیے مشکل ہو گیا تھا کہ وہ اپنے دائرہ اختیار سے باہر کی گئی تقریر یا تحریر کے مواد کی ذمے داری لیں، جو واقعتاً نہ تو ایڈیٹوریل ٹیم نے دیکھا ہو اور نہ ہی اس کی منظوری دی ہو لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ جو واقعہ جیو نیوز ز پر رونما ہی نہیں ہوا اس کے لئے حامد میر کے خلاف ایکشن کیسے لیا جا سکتا ہے۔ ایسا سراسر ان خفیہ طاقتوں کے ایما پر کیا گیا ہے جن کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے میڈیا سے وابستہ سیٹھ آخری حد تک جانے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ ناقدین کہتے ہیں کہ ایسے سیٹھ صحافت کو مشن نہیں بلکہ ایک کاروبار سمجھتے ہیں اور اپنے کاروباری مفادات کے تحفظ اور فروغ کے لیے طوائفیں بننے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔
دوسری جانب پاکستان کی صحافتی تنظیموں کا کہنا ہے کہ صحافیوں پر حملوں پر حکومت کا ردِعمل ظاہر نہ کرنا انہیں یہ سمجھنے پر مجبور کرتا ہے کہ ان اقدامات کے پیچھے یقینا وہی ریاستی ادارے ہیں جن کے بڑوں نے اپنا نام سامنے آنے پر حامد میر کو آف ائیر کروا دیا۔ اس تمام تنازعے کے دوران حکومت نے ایک حرکت یہ کی ہے کہ مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر شکنجہ تنگ کرنے کے لیے ایک نیا آرڈیننس لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت کی جانب سے پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے قیام کے لیے مشاورت کی غرض سے مختلف صحافتی اور میڈیا مالکان کی تنظیموں کو ڈرافٹ بھیجا گیا ہے جسے ڈریکونین قرار دیا جا رہا ہے۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس سمیت ملک کی تمام بڑی صحافی تنظیموں نے اس مجوزہ قانون کو مسترد کر دیا ہے۔ صحافتی تنظیموں کے مختلف دھڑوں کو ضم کرنے کے لیے قائم کی گئی یونیفکیشن کمیٹی کے سربراہ اور سینئر صحافی ضیا الدین کہتے ہیں کہ صحافیوں کے خلاف حالیہ واقعات میں ریاست کا ردِعمل غیر اطمینان بخش رہا ہے اور ان کے بقول حکومت کی لاتعلقی نے صحافیوں کو یہ سمجھنے پر مجبور کیا ہے کہ ان واقعات میں لامحالہ ریاستی اداروں کا تعلق ہے۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں کہ حامد میر کو ان کے ادارے نے اس تقریر کی بنا پر ہٹایا، جس کا ادارے سے کوئی تعلق نہیں بنتا جو کہ اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ میڈیا پر کس طرح براہ راست دباؤ آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کسی کو تقریر پر اعتراض تھا تو اس معاملے کو عدالت لے جایا جا سکتا تھا لیکن قانونی راستہ اختیار کرنے کی بجائے بقول ان کے کسی چیز کو جواز بنا کر صحافیوں کے خلاف مہم شروع کر دی جاتی ہے۔
خیال رہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان کئی مواقع پر کہہ چکے ہیں کہ پاکستان میں صحافیوں کو جتنی آزادی آج حاصل ہے، اتنی کسی دور میں نہیں تھی۔
وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد نے چند روز قبل ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ بغیر تحقیق کے ریاستی اداروں کو موردِ الزام ٹھہرانا کسی طور مناسب نہیں۔ مبینہ طور پر اسلام آباد میں حالیہ مہینوں میں کئی صحافیوں پر حملوں میں ملوث خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس نے بھی وزارتِ داخلہ کے توسط سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا تھا کہ صحافی اسد طور پر تشدد سے اُس کا کوئی تعلق نہیں۔ ایجنسی کا مؤقف تھا کہ یہ آئی ایس آئی کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔
تاہم ناقدین سوال کرتے ہیں کہ اگر آئی ایس آئی ان حملوں میں ملوث نہیں ہے تو پھر کسی ایک بھی حملہ آور کو اب تک گرفتار کیوں نہیں کیا جا سکا۔ یہ سوال بھی کیا جا رہا ہے کہ اگر آئی ایس آئی کا اسد طور پر ہونے والے حملے سے کوئی تعلق نہیں تھا تو پھر اس نے جیو کے مالکان پر حامد میر کو آف ائیر کرنے کے لیے مجبور کیوں کیا۔ سوال یہ بھی ہے کہ اگر آئی ایس آئی کا حامد میر کو آف ائیر کروانے سے کوئی تعلق نہیں تو پھر جیو کے مالکان آئی ایس آئی کے ہیڈ کوارٹر جا کر افسران کی قدم بوسی کرتے ہوئے کس بات کی شاباش وصول کر رہے ہیں؟
یاد رہے کہ عالمی صحافتی تنظیموں کے علاوہ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے بھی حامد میر کو آف ایئر کرنے کی مذمت کی ہے اور اس عمل کو آزادی صحافت سلب کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ پی ایف یو جے نے حامد میر کے خلاف غداری کا مقدمہ دائر کروانے کی ریاستی کوششوں کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اس حوالے سے سینئر صحافی ضیا الدین کہتے ہیں کہ لگتا یہی ہے کہ میڈیا کو مذید کنٹرول کرنے کی ننگی کوشش ہو رہی ہے جس کے نتیجے میں صحافیوں کو کام کرنے میں مشکلات ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اسی وجہ سے ملک کے صحافیوں کی مضبوط تنظیم پی ایف یو جے، جو کہ حکومت اور میڈیا مالکان کو اپنی حد میں رکھتی تھی، اسے بھی تقسیم کروا دیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر صحافتی تنظیموں میں تقسیم کو دور کر دیا جائے تو ایک پلیٹ فارم پر ہونے کی صورت میں آزادیٔ صحافت کی جدوجہد اور حقوق کا تحفظ کیا جا سکے گا۔
تاہم مظہر عباس کہتے ہیں کہ صحافیوں اور صحافتی تنطیموں کے مابین اکثر معاملات پر تقسیم پائی جاتی ہے، لیکن بعض معاملات میں یکسوئی بھی دیکھی جاتی ہے جیسے میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے بل کی سب صحافتی تنظیموں نے یک زبان ہو کر مخالفت کی ہے۔
پریس فریڈم انڈیکس نے گزشتہ برس پاکستان کی تین درجے تنزلی کرتے ہوئے اسے 145 ویں نمبر پر کر دیا تھا۔فریڈیم نیٹ ورک کے مطابق اسلام آباد اس وقت صحافیوں کے لیے خطرناک ترین شہر بن چکا ہے۔البتہ، حکومتِ پاکستان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ صحافیوں پر کوئی دباؤ نہیں ہے جب کہ صحافیوں کے تحفظ کے لیے بل پارلیمان میں لایا جا چکا ہے اور ان کی شکایات کا ہر فورم پر ازالہ کیا جائے گا۔

Back to top button