فواد نے قریشی کو جیل میں کس کا، کیاپیغام پہنچایا؟

عسکری املاک پر حملوں اور جلاؤ گھیراؤ کے بعد سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنےوالے پی ٹی آئی رہنماؤں کے اچانک متحرک ہونے کی خبروں کو سیاسی تجزیہ کار اہم پیشرفت کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ جب مقتدر قوتیں شرپسندی میں ملوث افراد کی سرکوبی کا پختہ فیصلہ کر چکی ہیں اور طے کر چکی ہیں کی شرپسندانہ کارروائیوں میں ملوث افراد، ان کے منصوبہ سازوں اور سہولتوں کو کوئی رعایت نہیں دی جائے گی۔ ایسے حالات میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فواد چودھری اور دیگر رہنماؤں کا تحریک انصاف سے کنارہ کشی کے بعد دوبارہ پی ٹی آئی رہنماؤں سے رابطوں کا اصل مقصد کیا ہے اور فواد چودھری نے جیل میں شاہ محمود قریشی سے ملاقات کر کے ان کو کس شخصیت کا کیا خصوصی پیغام پہنچایا ہے۔ یا سوشل میڈیا پر وائرل ایسی تمام اطلاعات محض افواہیں ہی ہیں؟

خیال رہے کہ پی ٹی آئی سے حال ہی میں علیحدگی اختیار کرنے والے رہنماؤں فواد چوہدری، عمران اسماعیل اور محمود مولوی نے بدھ کو پارٹی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی سے اڈیالہ جیل راولپنڈی میں ملاقات کی۔ملاقات کے بعد اڈیالہ جیل راولپنڈی کے باہر صحافیوں کو بتایا کہ وہ پارٹی کے دیگر سابق اور موجودہ رہنماؤں سے بھی رابطے میں ہیں۔فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ان کی علی زیدی، پرویز خٹک، اسد عمر، فرخ حبیب، عاطف خان اور شاہ محمود قریشی سے ’تفصیلی گفتگو‘ ہوئی ہے۔پی ٹی آئی کے سابق اور موجودہ رہنماؤں سے اپنی گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کو مستحکم حل کی طرف جانا ہے۔ ہمیں حل نکالنا ہے، حل نکالنے کی طرف جائیں گے۔

تحریک انصاف سے علیحدگی اختیار کرنے والے رہنماؤں کی اچانک سیاسی منظر نامے پر واپسی نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے اور سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے بھی موجودہ حالات پر تبصرے دیکھنے میں آرہے ہیں۔کئی افراد ایسی بھی ہیں جو فواد چوہدری کے تازہ بیان کو ’مائنس عمران‘ مہم کا حصہ قرار دے رہے ہیں۔عمر دراز گوندل لکھتے ہیں کہ ’جس طرح ایم کیو ایم نے الطاف حسین والی پریس کانفرنس کی تھی اور مائنس کیا تھا آج فواد چوہدری اور دیگر کی پریس کانفرنس عملی طور پر مائنس عمران کا اعلان تھا۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے حامی ذیشان خان نیازی نے لکھا کہ ’فواد چوہدری کو پھر کہیں سے تھپکی مل گئی ہے کیا؟‘انہوں نے مزید لکھا کہ ’یہ عجیب مذاق ہے کہ پریس کانفرنس کرنے والوں کو اب کُھلی رعایت مل گئی ہے کہ وہ اپنے کیسز معافی مانگ کر بخشا لیں اور پھر کسی اور پلیٹ فارم پر ایک ہوکر حکومت کے خلاف محاذ کھول لیں۔صحافی ریاض الحق کو بھی ایسا لگتا ہے کہ سابق پی ٹی آئی رہنماؤں کی میڈیا پر واپسی ’ایک نئی مائنس عمران خان پارٹی‘ کی طرف اشارہ ہے۔

شمس خٹک نامی صارف نے اس حوالے سے لکھا کہ ’پارٹی کے تمام رہنما اس بات پر قائل کریں کہ وہ موجودہ حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے ایک قدم پیچھے ہٹیں، رضا کارانہ طور پر پارٹی چیئرمین شپ چھوڑیں یا صرف کسی اور کو وزیراعظم کے امیدوار کے طور پر منتخب کریں۔فواد چوہدری کے بیان کے جواب میں پی ٹی آئی کے رہنما اسد قیصر نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ میرا فواد چوہدری سے کوئی رابطہ نہیں۔

دوسری جانب شاہ محمود قریشی کے صاحبزادے زین حسین قریشی نے بھی ایک ٹویٹ کے ذریعے اس تاثر کی تردید کی ہے کہ ان کے والد کسی عمران خان مخالف گروہ کا حصہ بن رہے ہیں۔ٹوئٹر پر جاری ایک بیان میں زین حسین قریشی کا کہنا تھا کہ ’آج اڈیالہ جیل میں تحریک انصاف کے سابق رہنماؤں سے شاہ محمود قریشی صاحب کی ملاقات پر میڈیا میں جو تاثر دیا جا رہا ہے میں اُس کی تردید کرتا ہوں۔ مخدوم صاحب پارٹی کے وائس چیئرمین ہیں اور پی ٹی آئی ایک نظریے کا نام ہے، ہم تحریک انصاف اور عمران خان کے نظریے کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘زین قریشی نے مزید لکھا کہ ’شاہ محمود قریشی نے آج تک صرف اصولوں اور خدمت کی سیاست کی۔ نہ کوئی عہدہ نہ کوئی لالچ شاہ صاحب کو خرید سکتی ہے۔ کل بھی عمران خان کے ساتھ تھے، آج بھی ہیں۔‘

دریں اثنا پی ٹی آئی کے ایک اور رہنما حماد اظہر کا کہنا ہے کہ ’میں چیرمین عمران خان کا کا رکن اور تحریک انصاف کا عہدہ دار ہوں اور اگر کوئی دوست مشورہ یا حل تجویز کرنا چاہیں تو اس کا حتمی فیصلہ صرف عمران خان ہی کریں گے۔خیال رہے فواد چوہدری، عمران اسماعیل اور محمود مولوی سمیت پی ٹی آئی کے متعدد رہنماؤں نے 9 مئی کو ہونے والے پُرتشدد مظاہروں کے تناظر میں پی ٹی آئی اور سیاست سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا۔

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف نے فواد چوہدری اور دیگر رہنماؤں کی پی ٹی آئی لیڈرشپ سے ملاقات کی خبروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے مذاکرات کی افواہیں کچھ ایسے لوگوں کی جانب سے پھیلائی جا رہی ہیں جو پہلے ہی پارٹی چھوڑ چکے ہیں۔ پی ٹی آئی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات رؤف حسین نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی اجازت سے مذاکرات کے لیے ایک کمیٹی پہلے ہی تشکیل دے دی گئی ہے جو عمران خان کی اجازت سے ہی کام کرے گی۔رؤف حسین کا کہنا تھا کہ ’یہ اقتدار میں بیٹھے لوگوں سے بات کرنے کے لیے کیا گیا جنہوں نے ملک کو تباہی کے دہانے پر دھکیل دیا ہے تاہم جو لوگ پہلے ہی پی ٹی آئی چھوڑ چکے ہیں اور اب اس کا حصہ نہیں ہیں ان سے مذاکرات کی ضرورت سمجھ سے بالاتر ہے۔پارٹی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات نے کہا کہ اس طرح کی افواہوں سے ان لوگوں کی ساکھ میں کوئی بہتری نہیں آئے گی جنہوں نے ایک ذلت آمیز کردار کا مظاہرہ کیا۔

Back to top button