ایئر چیف کی دوڑ سے باہر ہونے والا ایئر مارشل، کورٹ مارشل کا شکار

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان فضائیہ کے ریٹائرڈ ایئر مارشل جواد سعید کی اہلیہ کی اپنے شوہر کو حبس بےجا میں رکھنے کے خلاف دائر درخواست پر 15 ہزار روپے جرمانہ عائد کرتے ہوئے خارج کر دی۔ عدالت نے قرار دیاہے کہ ریٹائرڈ ایئر مارشل کو حبس بے جا میں رکھنے کا الزام غلط نکلا اور یہ ثابت ہو گیا کہ ان کا حساس دستاویزات شیئر کرنے پر کورٹ مارشل کیا گیا تھا اور 14 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ عدالت نے قرار دیا کہ یہ حقیقت درخواست گزار کے علم میں تھی لیکن پھر بھی عدالت میں  حبس بےجا کی درخواست دائر کر دی گئی جس پر جرمانہ بھی عائد کیا جا رہا ہے۔

اس سے پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج خادم حسین سومرو نے شازیہ جواد کی دائر کردہ حبس بےجا کی درخواست پر رجسٹرار آفس کے اعتراض کے ساتھ سماعت کی۔ رجسٹرار آفس نے یہ اعتراض عائد کیا گیا تھا کہ اس درخواست میں موجودہ ایئر چیف مارشل کو فریق نہیں بنایا جا سکتا۔ تاہم دوران سماعت اسسٹنٹ اٹارنی جنرل عظمت بشیر تارڑ نے عدالت کو بتایا کہ حساس دستاویز لیک کرنے اور آفیشل سیکرٹس ایکٹ کی خلاف ورزی پر ریٹائرڈ ائیر مارشل جواد سعید کا کورٹ مارشل ہوچکا ہے اور انھیں سزا بھی سنائی جا چکی ہے۔ لہٰذا عدالت نے درخواست خارج کرتے ہوئے مسز جواد سعید کو 15 ہزار روپے جرمانہ بھی عائد کر دیا۔ یاد رہے کہ جواد سعید مارچ 2021 میں ایئر مارشل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے۔ اس سے پہلے انھیں مختلف خدمات پر سرکاری اعزازات سے بھی نوازا گیا تھا۔

یاد رہے کہ تھری سٹار ایئر مارشل کا عہدے لیفٹیننٹ جنرل کے برابر تصور کیا جاتا ہے۔ کورٹ مارشل کا شکار ہونے والے ایئر مارشل کا نام ریٹائرمنٹ سے قبل مارچ 2021 میں فضائیہ کے سب سے سینیئر افسران کی اس سمری میں شامل تھا جو تب کے وزیر اعظم عمران خان کو ایئر چیف کی تعیناتی کے لیے بھیجی گئی تھی۔ وہ ایئر ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد میں اسسٹنٹ چیف آف ایئر سٹاف اور ڈپٹی چیف آف ایئر سٹاف بھی تعینات رہے۔

ایئر مارشل جواد سعید کی بازیابی کے لیے دائر کردہ کیس کی سماعت کے دوران اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 27 جنوری 2024 کو ریٹائرڈ ایئر مارشل جواد سعید کا کورٹ مارشل ہوچکا ہے۔ اس کے بعد 11 مارچ 2024 کو ان کی اپیل پر بھی فیصلہ ہوچکا ہے جبکہ اب ان کی رحم کی اپیل ایئر چیف مارشل کے پاس زیر التوا ہے۔ اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ریٹائرڈ ایئر مارشل جواد سعید کے خلاف آفیشل سیکرٹس ایکٹ کی خلاف ورزی کے 6 الزامات لگائے گے تھے جن میں انھیں 14 سال قید کی سزا سنائی گئی، تاہم ان کی اپیل پر ان کی سزا میں دس سال کی کمی کر کے اسے چار سال کر دیا گیا۔

عدالت نے اسسٹنٹ اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ ‘کورٹ مارشل میں سزا ہوئی ہے اس کا تحریری آرڈر کہاں ہے؟’ اس پر عدالت کو بتایا گیا کہ ’ابھی مکمل آرڈر ان کے پاس نہیں لیکن کورٹ مارشل کے فیصلے کا ایک پیرا ضرور موجود ہے جس میں الزامات اور سزا کا ذکر واضح ہے۔ اس دواران ریٹائرڈ ائیر مارشل جواد کے وکیل روسٹرم پر آئے اور کہا کہ جواد سعید کی اہلیہ اور ان کی بیٹیوں کو ‘بتائے بغیر کیسے انھیں سزا سنائی جا سکتی ہے؟’ ان کا کہنا تھا کہ ان کے وکیل کو بھی ان تک رسائی نہیں دی گئی۔ عدالت نے درخواست گزار کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اسسٹنٹ اٹارنی جنرل کے بقول ان کے پاس جو پیراگراف ہے اس میں جرائم اور سزا کا ذکر موجود ہے لہٰذا انکے شوہر کی ‘گمشدگی کی درخواست’ حقائق پر مبنی نہیں ہے خصوصا جب ان کی اہلیہ سے ملاقات بھی کروائی جا چکی ہے۔

جسٹس خادم حسین نے درخواست گزار کے وکیل سے یہ بھی استفسار کیا کہ گمشدگی یا حبس بے جا کی درخواست میں چیف آف ایئر سٹاف کو کیسے فریق بنایا جاسکتا ہے جس پر عبدالوحید ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ اس سے پہلے بھی کئی درخواستوں میں نیول چیف اور ایئر چیف کو فریق بنایا گیا ہے اور عدالتوں نے اس ضمن میں انھیں نوٹس بھی جاری کیے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ان کی موکلہ کے شوہر کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں ہے اور نہ ہی اس ضمن میں کسی ادارے کی جانب سے کوئی بیان سامنے آیا ہے۔ وکیل کا کہنا تھا کہ جواد سعید ایک ریٹائرڈ پرسن ہیں جنھیں غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’ہمیں تو یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ ریٹائرڈ ایئر مارشل پر کون سا الزام ہے اور ان کا کورٹ مارشل کب ہوا۔

جواد سعید کی اہلیہ کے وکیل کا کہنا تھا کہ ریٹائرڈ ایئر مارشل 18 مارچ 2021 کو اپنے عہدے سے ریٹائر ہوئے اور انھیں یکم جنوری 2024 کو گھر سے اٹھا لیا گیا۔انھوں نے کہا کہ جواد سعید اب ایک سویلین ہیں اور ان پر پاکستان ایئر فورس ایکٹ 1953 کا اطلاق نہیں ہوتا۔ عبدالوحید ایڈووکیٹ نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ اس درخواست میں بنائے گئے فریق کو حکم دیں کہ وہ ریکارڈ دکھا دیں تو وہ اپنی درخواست واپس لے لیں گے۔ اس پر عدالت نے درخواست گزار کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ‘اب یہ پٹیشن واپس نہیں ہوگی کیونکہ عدالت کو بتایا گیا ہے کہ ان کی موکلہ کے شوہر کے خلاف چارجز عائد ہوئے اور پھر باقاعدہ کوٹ مارشل کیا گیا۔ یوں عدالت نے درخواست کو 15 ہزار روپے جرمانے کے ساتھ خارج کر دیا۔ درخواست گزار کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ انھیں جواد سعید کے کورٹ مارشل کا ریکارڈ فراہم کیا جائے لیکن وزارت دفاع کے نمائندے نے عدالت کو بتایا کہ ایئر چیف مارشل نے اس کیس کا ریکارڈ فراہم کرنے کی اجازت نہیں دی۔

انسپکٹر نوید سعید نے کس کے حکم پر آصف زرداری کی زبان کاٹی ؟

عدالت نے وزارت دفاع کے نمائندے سے استفسار کیا کہ جب ایئرمارشل ریٹائرڈ جواد سعید کا کورٹ مارشل بھی ہوچکا اور سزا بھی سنائی جا چکی تو انھیں جیل بھیجنے کی بجائے عسکری تحویل میں کیوں رکھا گیا ہے؟’ تاہم وزارت دفاع کا نمائندہ اس ضمن میں عدالت کو مطمئن نہ کر سکا۔ درخواست گزار کے وکیل عبدالوحید کا کہنا تھا کہ وہ ریٹائرڈ ایئر مارشل جواد سعید کے کورٹ مارشل اور ان کو قانونی تقاضے پورے کیے بغیر دی گئی سزا کے فیصلے کو چیلنج کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ پہلے تو انھیں معلوم ہی نہیں تھا کہ جواد سعید کو کس جرم میں حراست میں رکھا گیا ہے، تاہم اب عدالت سے ان کے کورٹ مارشل کا علم ہونے کے بعد انکے لیے قانونی ریلیف حاصل کرنے کے بہت سارے راستے کھل گئے ہیں۔

Back to top button