علی امین گنڈاپور کی غیرقانونی افغانیوں کا ہیروبننے کی کوشش

وفاقی حکومت کے فیصلے کے برخلاف غیر قانونی افغان باشندوں کیلئے خیبر پختونخوا کو محفوظ پناہ گاہ بنانے کے بعد وزیر اعلی کے ہی کے علی امین گنڈاپور افغانوں کے ہیرو بن گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے افغان باشندوں کی واپسی کے معاملے پر وفاق اور کے پی کے حکومت آمنے سامنے آ گئی ہے۔
خیال رہے کہ وفاقی حکومت نے 31 مارچ تک غیر قانونی افغانوں اور افغان رجسٹریشن کارڈ رکھنے والے افغان مہاجرین کی واپسی کی ڈیڈ لائن دے رکھی ہے جبکہ رضاکارانہ طور پر اپنے ملک واپس نہ لوٹنے والے افغانوں کو گرفتار کر کے افغانستان بھجوانے کی حکمت عملی اپنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس حوالے سے جہاں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان لے علاوہ پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے حکام نے وفاقی حکومت کی پالیسی پر لبیک کہا ہے وہیں دوسری جانب گنڈاپور سرکار نہ صرف وفاقی حکومت کی افغانستان بارے پالیسی کی کھل کر مخالفت کر رہی ہے وہیں خیبرپختونخوا حکومت غیر قانونی افغانوں کی مکمل سہولتکاری کرتی بھی نظر آتی ہے۔
روزنامہ امت کی ایک رپورٹ کے مطابق افغان مہاجرین بارے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کی وفاقی حکومت کی مخالفت سے افغان باشندوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ جبکہ اطلاعات ہیں کہ راولپنڈی سمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں مقیم افغانوں نے پشاور اور صوبے کے دیگر اضلاع کا رخ کر لیا ہے۔
تاہم دوسری جانب وفاقی حکومت نے افغان مہاجرین بارے اپنی حکمت عملی پر سختی سے عملدرآمد کا فیصلہ کر لیا ہے۔ جس کے بعد حکومت نے افغان مہاجرین کی واپسی کیلئے 48چھاپہ مارٹیمیں تشکیل دے کر اسکریننگ کا عمل بھی تیز کر دیا ہے۔حکومتی ٹیموں کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر رپورٹس حکومت کو بھجوائی جارہی ہیں۔ جبکہ ٹیموں میں پولیس، ضلعی انتظامیہ، قانون نافذ کرنے والے اداروں سمیت کمشنریٹ افغان مہاجرین وغیر ہ شامل ہیں۔ اسی طرح مختلف تھانوں کی سطح پر بھی ٹیموں کی تشکیل عمل میں لائی گئی ہیں۔ جبکہ اے سی سی اور پی او آر ہولڈر افغان شہریوں کی دکانوں اور گھروں کے حوالے سے تحریری ضمانت نامے بھی لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پشاور کے مختلف مقامات پر کرائے پر رہائش پذیر اور کرائے کی دکانوں کے کاروبار کرنے والے افغان مہاجرین کے مالکان سے رابطے بھی شروع کر دیئے گئے ہیں۔
جبکہ ذرائع کے بقول پرائیویٹ اور سرکاری اسکولوں سے بھی رابطے کیے گئے ہیں اور پشاور کے مختلف بازاروں اور علاقوں میں افغان شہریوں کی اسکریننگ کا عمل تیز کر دیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق اب تک پشاور سمیت صوبہ بھر کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے ایک ہزار سے زائد خاندانوں نے واپسی کیلئے رجسٹریشن کا عمل مکمل کیا ہے۔ جبکہ سینکڑوں رجسٹریشن کیلئے رابطہ کر رہے ہیں۔یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ صوبے کے تمام نجی و سرکاری تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم افغان طلبہ کا ڈیٹا جمع کرنے کو بھی حتمی شکل دے دی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق افغان طالبعلموں کی تفصیلات معلوم کرنے کیلئے خصوصی فارم بھی جاری کیا گیا ہے۔ جس کے تحت فارم میں ضلع، اسکول اور دیگر بنیادی معلومات درج کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق تمام تعلیمی اداروں کو ایک ہفتے میں افغان طلبہ کا ڈیٹا فراہم کرنے کا ہدف دیاگیا ہے۔ جبکہ دوسری جانب غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کو 31 مارچ تک واپس بھیجنے کی ڈیڈ لائن پر وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کی جانب سے اعتراض نے فیڈریشن اور صوبے کو آمنے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ جس کی وجہ سے وفاق اور صوبے کے درمیان معاملات مزید سر دمہری کا شکار ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کی جانب سے وفاقی حکومت کے اس فیصلے کی مخالفت نے افغان باشندوں کیلئے نئی امید پیدا کر دی ہے اور انہوں نے خیبرپختون کا رخ کرنا شروع کر دیا ہے۔
راولپنڈی میں موجود ذرائع نے بتایا کہ راولپنڈی میں محنت مزدوری کرنے والے افغان مہاجرین واپس اپنے ملک جانے کے اعلان پر کافی بے چین تھے۔ لیکن وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کی جانب سے وفاقی حکومت کے اس فیصلے کی مخالفت نے ان کو نئی امید دی ہے اور غیر قانونی افغان باشندے ملک کھ دیگر شہروں سے نقل مکانی کر کےپشاور سمیت صوبے کے دیگر اضلاع میں بسنا شروع ہو گئے ہیں۔ جہاں انھیں نہ صرف محفوظ پناہ گاہیں مہیا کی جا رہی ہیں بلکہ انھیں خیبر پختونخوا میں روزمرہ ضروریات زندگی کے حوالے سے تمام سہولیات بھی دستیاب ہیں۔ یعنی گنڈپور سرکار ہیرو بننے کے چکر میں ریاستی اداروں کی مخالفت پر اتر آئی ہے۔
واضح رہے کہ حکومت کی جانب سے دی جانے والی ڈیڈ لائن ختم ہونے میں چند روز باقی ہیں۔ جس کے بعد افغان باشندوں کے خلاف ملک گیر گرینڈ آپریشن کا امکان ہے۔ تاہم ایک طرف وفاقی حکومت کی جانب سے افغان باشندوں کو واپس اپنے ملک جانے کیلئے 31 مارچ کی تاریخ دی گئی ہے۔ جبکہ دوسری طرف وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کی جانب سے اس فیصلے پر نظر ثانی کرنے اور افغان مہاجرین کے حوالے سے دیے جانے والے بیانات نے پاکستان میں بسنے والے افغان مہاجرین کیلئے امید پیدا کردی ہے اور صوبہ اور وفاق آمنے سامنے آگئے ہیں۔ یہ امکان بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ ڈید لائن قریب آنے کے ساتھ ساتھ افغان باشندوں کی پنجاب اور سندھ سے پشاور اور صوبے کے دیگر اضلاع کی طرف آمد میں تیزی آئے گی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ 31 مارچ کے بعد پنجاب اور سندھ سے افغانوں کی وطن واپسی ممکن ہے۔ تاہم بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں اگرچہ افغان باشندوں کی بڑی تعداد موجود ہے، جو واپس افغانستان کیلئے تیار نہیں جبکہ اس وقت خیبرپختونخوا حکومت ایسے افغانوں کیلئے محفوظ پناہ گاہ بن چکی ہے۔