ضمنی الیکشن PMLN اور PTI کے لیے زندگی اور موت کا کھیل کیوں؟

معروف صحافی اور تجزیہ کار نجم سیٹھی نے کہا ہے کہ اگر پنجاب کی 20 نشستوں پر ضمنی الیکشن میں نون لیگ نے اکثریت حاصل کرلی تو نہ صرف اس کی پنجاب حکومت مستحکم ہو جائے گی بلکہ اسلام آباد میں بھی اس کے قدم مضبوطی سے جمے رہیں گے۔ لیکن اگر یہ معرکہ تحریک انصاف کے ہاتھ رہا تو عمران خان کی جانب سے اپنی مقبولیت ثابت کرنے اور اسٹیبلشمنٹ کی صفوں میں رخنہ ڈالنے کی مہم اور بھی زور پکڑ لے گی اور انکا فوری الیکشن کا مطالبہ مزید شدت اور جارحانہ پن اختیار کر لے گا۔

ہفت روزہ فرائیڈے ٹائمز کے ایڈیٹوریل میں نجم سیٹھی کہتے ہیں کہ پنجاب کی بیس نشستوں پر سترہ جولائی کو ہونے والے ضمنی انتخابات فیصلہ کن لمحہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ ان سے مسلم لیگ ن کے فیصلے کی جانچ ہوگی کہ کیا ملک کو مشکلات کے بھنور سے نکالنے کے لیے پتوار ہاتھ میں لینے کا فیصلہ درست تھا؟ نیز ن لیگ کے ملک کے لیے ضروری لیکن مشکل اور غیر مقبول فیصلوں کو اپنے سیاسی فائدے میں ڈھالنے اور اسے اقتدار سے نکال باہر کرنے پر تلی ہوئی تحریک انصاف کس حد تک کامیاب ہوتی ہے؟ انکا کہنا ہے ل کہ مسلم لیگ ن کی جیت سیاسی استحکام اور معاشی یقینی پن کی راہ ہموار کرے گی، جب کہ تحریک انصاف کی جیت سیاسی نظام کو اس کے برعکس گڑھے میں دھکیل دے گی۔ کم از کم مستقبل قریب میں یہی کچھ ہوگا۔ تاہم سیاسی پنڈٹ کسی بھی جماعت کی بھرپور کامیابی کی پیش گوئی کرنے میں احتیاط سے کام لے رہے ہیں۔ مشکل معاشی فیصلوں نے رائے دہندگان کو تکلیف میں ڈالا ہے۔ اس کی وجہ سے مسلم لیگ ن کی مقبولیت قدرے کم ہوئی ہے۔ نیز اس کے روایتی حامی پسند نہیں کرتے کہ انہی امیدواروں کو دوبارہ میدان میں اتار جاتا جو اس سے پہلے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے۔ دوسری طرف تحریک انصاف نے اس مہم کو زندگی اور موت کا مسلہ بنا رکھا ہے۔ عمران نے چوروں کی امپورٹڈ حکومت کے اپنے بیانیے کو طوفانی بگولے کی شکل دے دی ہے جو ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لیتا جارہا ہے۔ دوسری طرف عمران اور ان کے حامی چکنے گھڑے ثابت ہورہے ہیں۔ ان کے لیڈر کے بارے میں ہولناک سکینڈل سامنے آجائیں یا ان کی سابق حکومت کی انتہائی مایوس کن کارکردگی کی بات ہو، ان پر کسی قسم کا اثر نہیں ہوتا۔ عمران نہایت کھلے الفاظ میں اور کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر اپنے حامیوں کو تشدد کاسہارا لے کر ووٹوں سے ڈبے بھرنے پر اکسا رہے ہیں۔ اس دوران اُنھوں نے عدلیہ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان پر دباؤ بڑھانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ صرف یہی نہیں، وہ اسٹیبلشمنٹ کے اندر بھی بغاوت کی آگ بھڑکانے کی کوشش میں مسلسل مصروف ہیں۔

نجم سیٹھی کا کہنا ہے کہ ضمنی الیکشن کے لئے ٹکٹوں کی تقسیم کے وقت عمران خان نے موقع پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نظریاتی امیدواروں کی بجائے طاقتور روایتی امیدوار میدان میں اتارے ہیں۔ انتخابی دوڑ اتنی شدت اختیار کرتی جارہی ہے کہ مسلم لیگ ن کے کئی وفاقی اور صوبائی وزرا اپنے عہدوں سے مستعفی ہوکر اپنے حلقوں کی طرف لپکے ہیں تاکہ اپنی پارٹی کے امیدوارں کے لیے مہم چلا سکیں۔ عمران خان کی اقتدار سے علیحدگی کے بعد فوجی اسٹیبلشمنٹ فوری انتخابات کی حامی تھی کیونکہ خان کی مقبولیت تیزی سے گرتی جارہی تھی۔ لیکن جب اس نے دیکھا کہ مسلم لیگ ن نے ملک کو مہیب معاشی بحران سے نکالنے اور آئی ایم ایف کو راضی کرنے کی ذمہ داری اٹھانے پر آمادگی ظاہر کع دی ہے تو اس نے بھی فیصلہ ن لیگ پر چھوڑ دیا۔ اب اگر عمران کامیاب ہوتے دکھائی دیتے ہیں تو یہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرسکتی ہے۔

عمران کو نکالنے کی سازش امریکہ نے کی یا فوج نے؟

نجم سیٹھی کے بقول ایک سازشی تھیوری پہلے ہی گردش میں ہے جس کے مطابق آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہونے کے بعد فوجی اسٹیبلشمنٹ پی ڈی ایم حکومت کو دھکا دے کر اکتوبر تک نئے انتخابات کا انعقاد کراسکتی ہے جو اس کے اصل مقاصد پورے کر سکتے ہیں۔ اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے سیٹھی کہتے ہیں کہ سازشی نظریے کے مطابق تازہ انتخابات کے لیے عمران کی طرف سے ڈالے گئے دباؤ کے تحت ایک معلق پارلیمنٹ بنائی جا سکتی ہے جس میں اسٹیبلشمنٹ ایک مرتبہ پھر اپنی مرضی سے ایسی مخلوط حکومت قائم کر سکے جو اس کا حکم مانے۔ یہ کچھ ایسا ہو ہو گا جیسے کی شہباز شریف اور آصف زرداری کی قیادت میں پی ڈی ایم کی موجودہ حکومت کر رہی ہے۔ اس طرح فوجی اسٹیبلشمنٹ اپنے لیے پریشانی پیدا کرنے والے عمران خان اور نواز شریف، دونوں کو راستے سے ہٹانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ سازش کی تھیوری کہتی ہے کہ اس طریقے سے نومبر میں چیف آف آرمی سٹاف، جنرل قمر جاوید باجوہ اگلے آرمی چیف کی نامزدگی پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ اس صورت میں اگلا آرمی ایسا ہوگا جو ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد کے منصوبوں میں ان کے لیے سازگار ہوگا یا پھر وہ خود ہی مدت ملازمت میں ایک اور توسیع لے لیں گے۔

نجم سیٹھی کہتے ہیں کہ اس دوران ایک اور دلچسپ ڈرامہ جاری ہے۔ خبر سامنے آئی تھی کہ اسٹیبلشمنٹ جنرل (ر) پرویز مشرف کو دو وجوہ کی بنا پر پاکستان واپس لانا چاہتی ہے۔ پہلی یہ کہ ایک سابق آرمی چیف کے سر پر آرٹیکل 6 کی لٹکنے والی تلوار ہٹادی جائے، اور ایسا کرتے ہوئے مستقبل میں بھی ادارے کو اس خطرے سے ہمیشہ کے لیے محفوظ بنا دیا جائے۔ اس نے پہلے ہی پشاور ہائی کورٹ کی مشرف کو سنائی جانے والی سزا پر عمل درآمد کو ٹال دیا تھا۔ دوسری وجہ اسحاق ڈار اور نوازشریف کی واپسی کی راہ ہموار کرنا تھا۔جب یہ خبر گرم تھی تو اسحاق ڈار نے اعلان کیا کہ وہ جولائی کے اختتام تک پاکستان واپس آنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اب جنرل (ر) مشرف کے خاندانی ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ تب تک واپس آنے کا ارادہ نہیں رکھتے جب تک ڈاکٹر گرین سگنل نہیں دیتے۔ اس پر بہت سی خبریں آنے لگیں۔ کچھ کے مطابق شاہد خاقان عباسی اور خواجہ آصف جیسے لیگی رہنما ڈار کی واپسی نہیں چاہتے اور نہ ہی وہ بغیر دقت کے فوری واپس آ سکتے ہیں۔حتمی بات یہ ہے کہ ڈار کی واپسی کا دارومدار اس بات پر ہے کہ کیا سپریم کورٹ بھگوڑا قرار دیے جانے کے خلاف ان کی تین سال پرانی درخواست کی سماعت کرے گی؟ اگر عدالت کا فیصلہ اُن کے حق میں آتا ہے تو وہ واپس آکر نیب مقدمات کا سامنا کریں گے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو اس کا مطلب ہوگا کہ انصاف ابھی تک اسٹیبلشمنٹ کا یرغمالی ہے۔

نجم سیٹھی کہتے ہیں کہ یہ تو صر ف وقت ہی بتائے گا کہ آنے والے مہینوں میں اعلیٰ عدلیہ اور جنرل باجوہ کے فیصلے کس طرح سامنے آتے ہیں، اور کیا پی ڈی ایم کی قیادت ان کے سامنے مزاحمت کر پاتی ہے یا نہیں۔ لیکن انکے بقول ملک کا سیاسی اور معاشی منظر نامہ تاریک دکھائی دیتا ہے۔ آئی ایم ایف کے پروگرام سے معاشرے کے تمام طبقے،خاص طور پر غریبوں کے لیے مشکلات بڑھ جائیں گی۔ اس کی وجہ سے سرمایہ کاری اور معاشی نمو کا عمل رک جائے گا اور بے روزگاری بڑھ جائے گی۔ دہرے ہندسے تک پہنچنے والی مہنگائی کے تدارک کے لیے کچھ نہیں ہوپائے گا۔ اگر پی ڈی ایم کی حکومت نے دولت مند طبقے پر بھاری ٹیکس عائد نہ کیا، نقصان کا باعث بننے والے ریاستی اداروں کو نجی تحویل میں نہ دیا، پہلے سے ہی مراعت یافتہ طبقے کو سبسڈی دینے کا سلسلہ نہ روکا اور پائیدار ترقی کی بنیاد طے نہ کی، تو پاکستانی عوام مایوسی اور مسائل کے جنگل سے کبھی باہر نہیں نکل پائیں گے۔

Back to top button