عمران کو فوج مخالف مہم چلانے کی چھٹی کس نے دی ہے؟
معروف تجزیہ کار اور عمران خان کے سابقہ بہنوئی حفیظ اللہ خان نیازی نے کہا ہے کہ اقتدار سے بے دخلی کے بعد سے خان صاحب اپنی تمام تر توانائیاں فوجی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف صرف کر رہے ہیں جس سے اس اہم ترین قومی ادارے کی ساکھ بھی متاثر ہورہی ہے، لہذا دیکھنا یہ ہے کہ کیا ملک عمران کو اسکے مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے کھلی چھٹی دینے کا متحمل ہو پائے گا یا نہیں؟
روزنامہ جنگ کے لئے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں حفیظ اللہ خان نیازی کہتے ہیں کہ اس معاملے پر کوئی دو رائے نہیں کہ عمران ے ترکش کے سارے تیر فوج اور اسکی قیادت کے خلاف چلائے جا رہے ہیں۔ امریکی ایجنڈے پر کارفرما ہیں۔ عسکری قیادت پر غداری کے الزامات، اور جھوٹ کی بوچھاڑ سے بظاہر عمران خان امریکہ اور بھارت کے ہاتھ کا کھلونا بن چکا ہے۔ایسے میں اسکی پہلی ترجیح پاکستانی معیشت کو گراوٹ کی انتہائی سطح تک پہنچانا اور اسے سری لنکا بنانا یے۔ اسی لیے خان صاحب اپنی تقریروں میں زیادہ خطرناک ہو جانے اور اسٹیبلشمنٹ کو کیفرِکردار تک پہنچانے کی دھمکیاں دیتے نظر آتے ہیں۔ ایسے میں موصوف کی ہرزہ سرائی کو روکنے والا کوئی نہیں ہے، مخلوط حکومت اور عسکری قیادت اپنے سر پکڑے بیٹھے ہیں اور پاکستان کی کشتی بیچ بھنور کے ڈگمگا رہی ہے۔
عمران کو نکالنے کی سازش امریکہ نے کی یا فوج نے؟
حفیظ اللہ نیازی کا کہنا ہے کہ ایک جانب ملکی معیشت اوندھے منہ گڑھے میں گر چکی ہے اور دوسری جانب عمران خان کی ساری توانائی اس کو مزید گہرا کرنے میں صرف یو رہی ہے۔ اگر ابتر معیشت گراوٹ کی آخری سطح کو چھوتی ہے تو قوی امکان ہے کہ عمران کسمپرسی کے ماروں کو مزید اُکسا کر سڑکوں پر لانے میں کامیاب رہے گا۔ یا حالات کی سنگینی سے تنگ آ کر عوام الناس اپنے طور ہر بھی سڑکوں پر آ سکتے ہیں، دونوں صورتیں میں عمران خان فائدے میں رہے گا۔ سڑکوں پرایسے جم غفیر کا پر تشدد ہونا یقینی ہے۔ انکا کہنا ہے کہ یوکرین کا اورنج انقلاب یا سری لنکا کی طرز پر بپھرے عوامی مجمع کو کوئی طاقت نہیں روک پائے گی۔ ایسے میں عمران کی اس دھمکی کے مطابق صورت حال بن جائے گی کہ ‘اگر مجھے اقتدار سے نکالا گیا تو میں اور بھی خطرناک ہو جاؤں گا اور تم لوگوں کو چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی’۔ بقول حفیظ اللہ نیازی عمران کی ‘تم لوگوں’ سے مراد عسکری قیادت ہے۔ مت بھولیں کہ عمران خان کیلئے محسنوں سے نبٹنا آزمودہ ہے۔موصوف منتقم المزاجی اور منافقت کا امتزاج ہیں اور اپنی کمزوری کو فخر میں تبدیل کرنے کا فن انکی ایک اضافی صِفت ہے۔ خان صاحب بہت سارے معاملات میں دلیر بلکہ دیدہ دلیر ہیں۔ وہ سخت جان ہیں، جارحیت میں یکتا اور تمیز اور بدتمیز، تہذیب اور بدتہذیب کی افراط و تفریط سے بری الذمہ ہیں۔
حفیظ اللہ نیازی یاد دلاتے ہیں کہ میں کئی سالوں سے ڈنکے کی چوٹ برملا اظہار کر چکا ہوں کہ جس دن عمران خم ٹھونک کر اسٹیبلشمنٹ کے سامنے کھڑا ہو گیا، وہ بہت خطرناک ثابت ہو گا۔ لہذا وہ وقت آن پہنچا ہے اور اس وقت عمران خان کا بنیادی اور مرکزی ہدف پاکستان کی عسکری قیادت بن چکی ہے۔
زمینی حقائق بھی یہی ہیں کہ عمران اپنی تمام تر توانائی بغیر کسی حیل و حجت کے اپنی محسن رہنے والی فوجی اسٹیبلشمنٹ کیخلاف لگا رہا ہے۔ خان صاحب کے فوج پر مسلسل حملے ایسے تباہ کن ہیں کہ ادارے بھی بے بسی کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔ غرض یہ کہ ہر وہ امکانی تدبیر جو تباہی کی طرف لے جا سکتی ہے، عمران اس پر پوری طرح عمل پیرا ہے اور اس کے جارحانہ انداز کے سامنے ادارے ڈھیر دکھائی دیتے ہیں۔ حفیظ اللہ نیازی کہتے ہیں کہ میں نے اسی لیے کئی مہینے پہلے سیاست کے اکابر کو متنبہ کیا تھا کہ خان کو اقتدار سے نکالنا بہت ہی مہنگا پڑے گا۔ چنانچہ آج عمران خان کی تقریروں کا ہدف اپوزیشن تو ہے ہی لیکن اس کا اصلی نشانہ فوجی اسٹیبلشمنٹ ہے جس پر وہ تاک تاک کر حملے کر رہا ہے۔ اسکی ساری صف بندی کا لب لباب ایک ہی پیغام ہے کہ ملک سے غداروں اور سازشیوں کا قلع قمع کرنا ضروری ہے۔ اس کے ماننے والے بھی اس پیغام کو ایک مذہبی فریضہ سمجھ بیٹھے ہیں۔ عمران تمام تر ذلت و خواری کے باوجود اپنے ماننے والوں کے حوصلے پست نہیں ہونے دے رہا اور اپنی لفظی جنگ مسلسل آگے ہی بڑھاتا چلا جا رہا ہے۔ لہٰذا آج سیاسی میدان میں عمران اکیلا دندناتا پھرتا ہے۔ یوں صورتحال پوری طرح عمران خان کے ایجنڈے کے مطابق ابتری کی طرف گامزن یے اور وی اس ابتری میں اپنا پورا حصہ ڈالتے ہوئے جان ہتھیلی پر رکھ کر اپنا بدلہ چکائے گا۔ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان کی پاکستان کو سری لنکا بنانے کی خواہش پوری ہوگی؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا ہماری سیاسی قیادت اور اداروں سے عوام کا ٹکراؤ روکنے کی کسی حکمت عملی پر کہیں غور و خوض ہورہا ہے اور کیا پاکستان عمران کے جارحانہ عزائم کو یوں کھلی چھٹی دینے کا متحمل ہو پائے گا؟