کیا ججوں کے سیاسی فیصلے سیاسی نظام کو ڈی ریل کرنے والے ہیں؟
کیا ججوں کے سیاسی فیصلے سیاسی نظام کو ڈی ریل کرنے والے ہیں؟ملک میں جہاں ایک طرف مختلف مقدمات میں عمران خان کی بریت، پی ٹی آئی کو مخصوص نشستوں کی فراہمی کا حکم، حکومت کی جانب سے عمران خان، عارف علوی اور قاسم سوری پر آرٹیکل چھ کا مقدمہ قائم کرنے اور تحریک انصاف پر پابندی عائد کرنے کے اعلان نے سیاسی ہلچل مچا رکھی ہے اور لیگی قیادت نے عمرانڈو ججز کو ہدف تنقید بنا رکھا ہے وہیں دوسری جانب وزیر دفاع خواجہ آصف نے سسٹم کے ڈی ریل ہونے اور آئینی بریک ڈاون کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہفتے دس دن میں معاملات کس طرف جاتے ہیں واضح ہو جائے گا۔
ملک میں ماضی کے واقعات بتاتے ہیں کہ ہمارے کسی معاملے میں استحکام ہو یا نہ ہو مگر ہم حکومتیں گرانے اور وزرائے اعظم کو فارغ کرنے میں بہت مستقل مزاج ہیں۔ اسی لیے تو ہر حکومت بنتے ہی تجزیہ کار اور سیاستدان بڑے اعتماد سے پیش گوئیاں شروع کردیتے ہیں کہ حکومت چند ماہ کی مہمان ہے۔ ستم تو یہ ہے کہ ان کی ایسی سب خبریں اور تجزیے جلد یا بدیر سچ ثابت ہو جاتے ہیں۔ عوام بھی ایسی خبروں اور تجزیوں کو بڑے غور سے سنتے ہیں اور حکومت کے جانے کا انتظار شروع ہو جاتا ہے۔اس حکومت کے ساتھ بھی یہی کام ہو رہا ہے۔ سیاسی نجومیوں نے حکومت بنتے ہی کچھ عرصے بعد کہنا شروع کر دیا کہ یہ حکومت زیادہ دیر تک نہیں چل پائے گی۔ کچھ آوازیں تو ایسے حلقوں سے آنا شروع ہوئیں جو مقتدرہ سے جڑے ہوئے ہیں اور جن کی باتوں کو عوام بڑے غور سے سنتے ہیں کہ پاکستان کے طاقتور حلقے کیا سوچ رہے ہیں۔ تاہم ملکی سیاسی صورتحال اور لیگی رہنماؤں کے خدشات کو سیاسی تجزیہ کار شہباز شریف کیلئے مشکل حالات کی ابتداء قرار دے رہے ہیں
اس حوالے سے تجزیہ کار نادیہ نقی کا کہنا ہے کہ ’حکومت کو معلوم ہے کہ ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے کیونکہ یہ طے کر لیا گیا ہے کہ مخصوص نشستوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہونا۔ اس لیے جب دو اداروں کا تصادم ہوتا ہے تو اسی کو آئینی بریک ڈاؤن کہہ سکتے ہیں۔ اس صورت حال میں حکومت بے بس ہے کیونکہ وہ خود سے کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہی۔ اس کو جو کہا جا رہا ہے وہ کر رہی۔ ممکن ہے کہ اگر اسی فیصد بھی سول بالادستی ہوتی تو ن لیگ یہ فیصلہ قبول کر لیتی لیکن حکومت اس وقت طاقتور حلقوں کے ہاتھ میں کٹھ پتلی بنی ہوئی ہے اسی لیے آئینی بریک ڈاون کا خطرہ ہے۔‘انھوں نے کہا کہ ’تحریک انصاف پر پابندی کا فیصلہ بھی ن لیگ کا اپنا نہیں تھا بلکہ کئی ن لیگی رہنما اس فیصلے کے خلاف ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم ایسا نہیں چاہتے لیکن حکومت مجبور اور بے بس ہے بلکہ ان کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں وہ صرف نام کی حکومت ہیں۔‘
نادیہ نقی کے مطابق ’اس وقت ن لیگ کے اندر خانے بھی چہہ مگوئیاں اور سرگوشیاں جاری ہیں کہ آگے پتہ نہیں کیا ہوگا۔ لیکن جو بھی ہوگا اس کا اصل سکرین پلے آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل کے بعد ہی ہوگا اور ممکن ہے اس کے بعد ن لیگ کیا کسی بھی جماعت کے ہاتھ میں کچھ نہ آئے۔ یہ غیر آئینی اقدام بھی ہو سکتا ہے اور ظاہر یہ سوچ سمجھ کر نہیں بلکہ غصے میں لیا جاتا ہے۔ اس وقت اسٹبلشمنٹ یہ طے کر چکی ہے کہ تحریک انصاف کو معاف نہیں کرنا اور عمران خان کو اندر رکھنا ہے لیکن عدلیہ ان کے ان فیصلوں کے راستے میں رکاوٹ ہے تو ان کے پاس واحد راستہ غیرآئینی اقدام ہے۔‘انھوں نے مزید کہا کہ بظاہر اب یہ دکھائی دے رہا ہے کہ ’اسٹیبلشمنٹ ن لیگ سے بھی مایوس ہو چکی ہے کیونکہ جس محاذ پر بھی دیکھیں ن لیگ تحریک انصاف کو کاؤنٹر کرنے میں ناکام ہوئی ہے۔ پی ٹی آئی کو دیوار سے لگانے کے باوجود میڈیا سپیس ان کے پاس ہے۔ بیانیہ ان کا مضبوط ہے۔ اب وہ وقت آ گیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اپنی غلطیوں کا بوجھ بھی ن لیگ پر ڈالے گی۔‘
جہاں ایک طرف سیاسی بحران ہے وہیں ملک میں معاشی بحران بھی موجود ہے۔ بجلی کے بلوں اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کی وجہ سے عوامی سطح پر بھی حکومت کو ردعمل کا سامنا ہے۔ اس صورت حال نے بھی حکومت کو پریشان کر رکھا ہے۔
تجزیہ کار ضیغم خان کا کہنا ہے کہ ’حکومت کو ایک نہیں کئی چیلنجز کا سامنا ہے بلکہ بحرانوں کا سامنا ہے۔ حکمران جماعتوں کی مقبولیت ختم ہو چکی ہے اور حکومت میں ان کی موجودگی پر بھی قانونی سوالات موجود ہیں کیونکہ انتخابی دھاندلی کے حوالے سے سوالات کا جواب آنا ابھی باقی ہے۔‘انھوں نے کہا کہ ’حکومت ڈری ہوئی ہے کہ کہیں ایسی صورت حال نہ بن جائے کہ فوری طور پر انتخابات کی طرف جانا پڑ جائے یا ملک میں مہنگائی اور معاشی صورت حال پر احتجاج یا بڑے پیمانے پر مظاہرے نہ شروع ہو جائیں۔ ان تمام خطرات اور خدشات کی وجہ سے حکومت خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہی ہے۔ اسی وجہ سے وہ ایسے فیصلے کر رہی ہے یا اس سے کروائے جا رہے جن کو وہ خود بھی تسلیم نہیں کرنا چاہتے۔‘