کیا نوازشریف کا مزاحمتی بیانیہ اپنانے کی کہانی صرف ڈھکوسلہ ہے ؟

سینئر صحافی رضا رومی کا کہنا ہے کہ کابینہ میں ہونے والی تبدیلیوں سے محسوس ہو رہا ہے کہ نواز شریف اپنی حکمت عملی پھر سے ترتیب دے رہے ہیں۔ انہیں شاید یہ احساس ہو رہا ہے کہ انہوں نے بہت ساری جگہ اسٹیبلشمنٹ کو دے دی ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ شہباز شریف اسٹیبلشمنٹ کے سامنے مزاحمت نہیں کریں گے۔ نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کا کردار محدود کرنا چاہتے ہیں اسی لیے اسحاق ڈار اور رانا ثناء اللہ کو اہم عہدوں پر لگایا گیا ہے جو اسٹیبلشمنٹ کے لیے واضح پیغام ہے۔ رضا رومی کے مطابق نون لیگ کیلئے دوسرا بڑا خطرہ پیپلز پارٹی ہے جو اس وقت سب سے مضبوط پوزیشن میں ہے۔ شہباز شریف کی نسبت آصف زرداری کی نوکری زیادہ پکی ہے۔ چیئرمین سینیٹ ان کا ہے۔ پیپلز پارٹی کا کارڈ اسٹیبلشمنٹ کے بھی ہاتھ میں ہے اور پی ٹی آئی کے بھی۔ مستقبل میں کسی بھی وقت پیپلز پارٹی حکومت میں آ سکتی ہے۔ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی مل کر بھی حکومت بنا سکتے ہیں۔ تاہم نواز شریف نے اسحاق ڈار اور رانا ثناء اللہ کی تعیناتی سے پیپلز پارٹی کا بھی راستہ روک دیاہے۔

دوسری جانب بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت میں نظر آنے والی تبدیلوں کو زیادہ اہم اس لیے سمجھا جا رہا ہے کیونکہ رانا ثنا اللہ اور اسحاق ڈار دونوں ہی وزیرِاعظم شہباز شریف کے بڑے بھائی نواز شریف کے قریب سمجھے جاتے ہیں۔رانا ثنا اللہ کا شمار ن لیگ کے ان سینیئر رہنماؤں میں ہوتا ہے جو کہ رواں برس عام انتخابات میں شکست کے سبب اسمبلی تک نہ پہنچ سکے تھے۔رانا ثنا اللہ اور میاں جاوید لطیف انتخابات کے بعد ن لیگ کے اندر سے اُٹھنے والی ان آوازوں میں سے تھے جو اپنی ہی جماعت کی کابینہ سے خوش نہیں تھے۔رانا ثنا اللہ ان شخصیات میں سے ایک ہیں جو اعلانیہ کہہ چکے ہیں کہ وہ چاہتے ہیں کہ ’پارٹی کی صدارت اب نواز شریف خود سنبھالیں۔‘

وزیرِ خارجہ اور سینیٹر اسحاق ڈار کی بطور نائب وزیرِاعظم اور رانا ثنا اللہ کی وزیرِ اعظم کے مشیر برائے سیاسی و عوامی امور تقرریاں اس طرف اشارہ کر رہی ہیں کہ شاید سابق وزیرِاعظم نواز شریف اپنی جماعت اور حکومتی معاملات پر مزید کنٹرول حاصل کرنے کے خواہاں ہیں۔

خیال رہے کہ رواں برس ہونے والے انتخابات سے قبل ن لیگ کی جانب سے کہا جا رہا تھا کہ نواز شریف چوتھی مرتبہ ملک کے وزیرِاعظم بنیں گے لیکن الیکشن کے نتائج کے بعد یہ رائے عام ہوئی کہ واضح مینڈیٹ اور اکثریت نہ ملنے کے سبب انھوں نے خود ہی وزارتِ عظمیٰ سے دور رہنے کو ترجیح دی تاہم نواز شریف کی جانب سے تاحال اس بارے میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

نواز شریف اور ان کی جماعت نے شہباز شریف کو وزیرِاعظم کا امیدوار نامزد کیا اور وہ پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اور دیگر چھوٹی جماعتوں کی حمایت سے دوسری مرتبہ پاکستان کے وزیرِاعظم منتخب ہو گئے۔ تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت کی کابینہ میں ’مقتدرہ‘ یعنی اسٹیبلشمنٹ کے حمایت یافتہ لوگوں کی آمد سے ن لیگ میں اختلافات نے جنم لینا شروع کر دیا۔ اگرچہ ن لیگ اسحاق ڈار کی بطور نائب وزیرِاعظم اور رانا ثنا اللہ کی وزیراعظم کے مشیر کے تقرریوں کو ’معمول کی سرگرمی‘ قرار دے رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ یہ فیصلے ’سٹیک ہولڈرز‘ کی مشاورت سے کیے گئے ہیں۔ تاہم یہ معمول کی سرگرمی نہیں ہے بلکہ ایسا معاملہ ہے جہاں سے اکثر کھٹ پٹ یا اختلافات کی ابتدا ہوتی ہے۔‘

’رانا ثنا اللہ اور اسحاق ڈار کی تقرریوں سے نواز شریف حکومت میں اپنی موجودگی کا احساس دلانے کی کوشش کر رہے ہیں اور انھیں اس میں کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے۔‘دوسری جانب ن لیگ اس تاثر کی تردید کرتی ہوئی نظر آتی ہے کہ جماعت میں کوئی تقسیم پائی جاتی ہے۔

Back to top button