5 نومبر 1996 جب وزیر اعظم بےنظیر کے سب سے قابل اعتماد فاروق لغاری نے ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا
” جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے ” کے مصداق، آج سے 28 برس قبل ایک جیالے صدر مملکت سردار فاروق احمد خان لغاری نے 1996ء میں اپنی ہی جماعت پیپلز پارٹی کی حکومت کو برطرف کرکے محترمہ بےنظیر بھٹو کو شدید سیاسی دھچکا پہنچایاتھا۔ بےنظیر بھٹو صاحبہ کا فاروق لغاری سے اعتماد کا یہ عالم تھاکہ ان کی حکومت برطرف کرنے سےقبل معروف صحافی نے یہ خبر شائع کی کہ فاروق لغاری اپنی ہی جماعت کی سربراہ بےنظیر بھٹو کی حکومت برطرف کر کے اسمبلیاں تحلیل کرنے جا رہے ہیں۔ صبح اٹھ کر جب خبر بےنظیر بھٹو کے سامنےآئی تو محترمہ بےنظیر بھٹو کے منہ سے یہ برجستہ جملہ نکلا کہ ’’فاروق بھائی ایسا نہیں کر سکتے‘‘یہ خبر جھوٹی ہے۔
صدر فاروق لغاری مرحوم سمجھتے تھے اسٹیبلشمنٹ کی مکمل سپورٹ کے ہوتےہوئے ان کی صدارت کو کوئی خطرہ نہیں لیکن چند ماہ بعد صدر فاروق لغاری سے بھی میاں نواز شریف صاحب نے استعفیٰ وصول کیا
اسے اقتدار کا کھیل کہیے یا بدقسمتی کہ بےنظیر بھٹو کے دوسرے دور اقتدار کے خاتمے میں سیاسی مخالفین سے زیادہ اپنے بھائیوں، قابل اعتماد رفیقوں اور خاندان کے اندر طویل ہوتی لڑائیوں نے بھرپور کردار ادا کیا۔
اگر تاریخ کے اوراق کا مطالعہ کیا جائے تو اس وقت کی حزب مخالف نے اس صورت کا فائدہ تو اٹھایا لیکن دن بدن کمزور ہوتی بےنظیر بھٹو کی حکومت کو گرتی ہوئی دیوار سمجھ کر دھکا نہیں دیا بلکہ اپنوں کی مہربانی سے بےنظیر حکومت اپنی ہی جماعت کے بوجھ تلے دب گئی۔
یہ بھی محض اتفاق ہی سمجھیے کہ جب پانچ نومبر 1996 کو بےنظیر حکومت کا خاتمہ کیا گیا، اس وقت امریکہ میں صدارتی انتخابات ہورہے تھےاور اب بھی صدارتی انتخابات سر پر ہیں۔
پاکستان میں سیاسی حالات کافی عرصے سے انتشار کا شکار تھے اور تجزیہ کار کسی بڑی تبدیلی کا عندیہ دےرہے تھے، لیکن عوام کےلیے یہ فیصلہ اچانک اور دھماکے کی مانند تھا۔ فاروق لغاری کی جانب سے بےنظیر حکومت کا خاتمہ حیران کن اس لیے تھا کیونکہ لغاری کا تعلق خود بےنظیر کی پارٹی سے تھا، اور وہ بےنظیر کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے تھے۔ بےنظیر نے اپنی حکومت پر صدر کی طرف سے کسی مداخلت کا راستہ بند کرنے اور 58 ٹو بی کے وار سے بچنے کےلیے فاروق لغاری کو ایوان صدر پہنچایا تھا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق مرتضیٰ بھٹو کے قتل،فاروق لغاری کے بدلتے رویے،عدلیہ کے ساتھ تناؤ اور فوج کے اندرونی مسائل نے بالآخر بےنظیر حکومت کے خاتمے کی راہ ہموار کی۔
چوٹی زیریں ڈیرہ غازی خان سےتعلق رکھنے والے فاروق لغاری بےنظیر بھٹو کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے تھے اور بےنظیر انہیں بھائی کہہ کر بلاتی تھیں۔
پاکستان کی صحافتی اور سیاسی تاریخ میں ایک واقعہ کئی محفلوں میں سنایا جاتا ہےکہ جب بےنظیر بھٹو کو معلوم ہوا کہ فاروق لغاری ان کی حکومت ختم کرنے جارہے ہیں تو وہ ایوان صدر میں ان سے ملنےگئیں۔ گفتگو کے دوران جب بےنظیر نے انہیں مسٹر لغاری یا مسٹر پریذیڈنٹ کےبجائے فاروق بھائی کی تکرار کی تو فاروق لغاری نے ملٹری سیکریٹری سے کہاکہ بیگم صاحبہ سے کہیں کہ ان کی نند ان سے ملنے کےلیے آئی ہیں۔
فاروق لغاری کے بارےمیں کہا جاتا ہےکہ وہ وزیر خزانہ بننا چاہتے تھے لیکن بےنظیر بھٹو نے انہیں قابل اعتماد جانتےہوئے انہیں صدر منتخب کروایا اور اس مقصد کےلیے انہوں نے ذاتی طور پر محنت کی اور سابق صدر غلام اسحٰق خان کو بطور صدارتی امیدوار اپنے کاغذات واپس لینے پر قائل کیا۔
لیکن فاروق لغاری نے حکومت پر کرپشن کے آئے روز لگتےہوئے الزامات، امن و امان کی بگڑتی صورت حال اور بھٹو خاندان کی اندرونی چپقلش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بےنظیر حکومت کا خاتمہ کردیا۔
یوں ایک وقت میں بےنظیر بھٹو کے پسندیدہ ترین اور منہ بولے بھائی فاروق لغاری ان کےلیے ناپسندیدہ ترین اور تاحیات قابل نفرت کردار بن گئے۔ ان کی وفات پر آصف زرداری کی جانب سے اظہار افسوس کا بیان بھی ایسا تھاکہ جس میں پیپلز پارٹی کی فاروق لغاری سے متعلق خیالات کی عکاسی ہوتی تھی۔
بےنظیر بھٹو کی حکومت کےپہلے سال میں ہی انہوں نے عدلیہ میں اپنی مرضی کے چیف جسٹس کی تقرری کا موقع حاصل کرلیا۔ 5 جون 1994 کو دو سینیئر ججز کو نظر انداز کرکے سجاد علی شاہ کو چیف جسٹس مقرر کیا گیا۔اسی سال حکومت نے آرٹیکل 234 کے تحت صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا) میں گورنر راج لگاکر مسلم لیگ (ن) اور اے این پی کی مخلوط حکومت کو معطل کردیا اور پیپلز پارٹی کے آفتاب احمد شیرپاؤ کو وزیر اعلیٰ مقرر کیا۔
پنجاب میں بھی ایک سال بعد ایسی ہی صورت حال پیدا ہوئی۔ پیپلز پارٹی کی حمایت سے بننے والی مسلم لیگ (ج) کی حکومت کے وزیر اعلیٰ منظور وٹو کے خلاف مرکز نے آرٹیکل 234 کے تحت گورنر راج نافذ کردیا۔ بعد میں سردار عارف نکئی کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا، لیکن منظور وٹو نے لاہور ہائی کورٹ سے اپنی بحالی کی درخواست دی اور عدالت نے ایک سال بعد ان کی حکومت کو بحال کردیا۔
پیپلز پارٹی پر الزام لگایا گیاکہ اس نے سندھ اور لاہور ہائی کورٹ میں اپنے حامی ججز کی تقرری کی اور کئی غیر موزوں افراد کو ججز بنایا۔ جسٹس ناصر اسلم زاہد کو سندھ ہائی کورٹ سے وفاقی شرعی عدالت بھیج دیا گیا اور سندھ و لاہور ہائی کورٹ میں پسندیدہ افراد کو ججز مقرر کیا گیا۔
حامد خان کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں تعینات کیےگئے 20 ججز میں سے 10 بمشکل میرٹ پر پورا اترتے تھے۔ اس پر وہاب الخیری نے سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر کیا جس کےنتیجے میں غیر موزوں افراد کو برطرف کردیا گیا۔
بےنظیر بھٹو کے دوسرےدور حکومت میں بھٹو خاندان مسلسل باہمی چپقلش کا شکار رہا۔ ساری زندگی اپنی بیٹی کے ساتھ ڈٹ کر کھڑی رہنےوالی بیگم نصرت بھٹو بھی بےنظیر کے سیاسی فیصلوں بلکہ ان کے سیاسی مستقبل کے بارےمیں شاکی بن گئی تھیں۔
ان کے اختلاف کی وجہ میر مرتضیٰ بھٹو کو ذوالفقار علی بھٹو کا سیاسی جانشین بننا بھی تھا۔مرتضیٰ بھٹو نے ضیاالحق کےدور میں "الذوالفقار” کے ذریعے حکومت کےخلاف مزاحمت کی، لیکن 1993 میں وہ پاکستان واپس آ گئے۔ بےنظیر بھٹو اور ان کے درمیان سیاسی جانشینی کے معاملے پر اختلاف پیدا ہو گیا۔ نصرت بھٹو بیٹے مرتضیٰ کو سیاسی جانشین سمجھتی تھیں، جب کہ بےنظیر اپنی حیثیت کو قائم رکھنےکی کوشش میں تھیں۔
1994 میں ذوالفقار علی بھٹو کی سالگرہ پر نصرت بھٹو نے گڑھی خدا بخش جانےکا ارادہ کیا، جب کہ بےنظیر نے والد کی قبر کےقریب مشاعرہ منعقد کیا۔نصرت بھٹو کےجلوس کی سکیورٹی خدشات کی بنا پر کارکنوں کو روکنےکی کوشش کی گئی جس سے جھڑپیں ہوئیں اور متعدد افراد زخمی ہوئے۔اس واقعے سے مرتضیٰ بھٹو کےلیے ہمدردی بڑھی اور 1995 میں انہوں نے پیپلز پارٹی (شہید بھٹو) کےنام سے علیحدہ پارٹی بنائی۔
مرتضیٰ بھٹو کے بڑھتےہوئے سیاسی اثر و رسوخ نے کئی افراد کو فکر مند کردیا۔ 20 ستمبر کو مرتضیٰ نےایک پریس کانفرنس میں اپنےخلاف سازش کی بات کی اور پولیس افسران کو ذمہ دار قراردیا۔ اسی شام جب وہ 70 کلفٹن پہنچےتو پولیس نے انہیں روکا اور فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں مرتضیٰ بھٹو شدید زخمی ہوئےاور اسپتال پہنچنے پر جانبر نہ ہوسکے۔
فاروق لغاری کے بےنظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے فیصلے نے جہاں پاکستان کےسیاسی منظر کو تبدیل کیا،وہاں 58 ٹو بی کی شق کے استعمال پر بھی بحث کو جنم دیا۔ 1997 میں 13 ویں ترمیم کے ذریعےیہ شق آئین سے ختم کردی گئی اور وزیر اعظم کے اختیارات کو مزید مستحکم کیاگیا۔
تاہم، 58 ٹو بی کا خاتمہ بھی سیاسی استحکام کا ضامن نہ بن سکا۔یہ شق پاکستان کی آئینی تاریخ میں اس لیے یادگار رہےگی کہ اس کے تحت چار وزرائے اعظم کو وقت سےپہلے ہی گھر بھیج دیا گیا اور یہ شق ہمیشہ سے ایک متنازع موضوع رہی جس کے حامیوں کےنزدیک اس کا استعمال احتساب کےلیے ضروری تھا جب کہ ناقدین کے نزدیک یہ جمہوریت کی راہ میں رکاوٹ بنی رہی۔
58 ٹو بی کے خاتمے کےبعد صدر کے اختیارات محدود ہوگئے لیکن پاکستان کی سیاسی تاریخ نے بارہا یہ ثابت کیاکہ سیاسی معاملات میں اصل طاقت کا مرکز پارلیمان یا وزیر اعظم ہاؤس نہیں،بلکہ غیرآئینی طاقتیں رہی ہیں،جنہوں نے وقتاً فوقتاً اپنی من پسند حکومتیں بنانےاور گرانے میں کلیدی کردار ادا کیاہے۔
بےنظیر بھٹو کی دوسری حکومت کے خاتمے کےبعد پاکستان کی سیاست میں اہم تبدیلیاں آئیں۔ان کی برطرفی کےبعد ملک میں سیاسی استحکام کےمسائل نے سر اٹھایا اور جمہوریت کو تقویت دینےکی بحث نے زور پکڑا۔صدر کے اختیارات کو کم کرنے اور پارلیمانی نظام کو مضبوط بنانے کےلیے سیاسی جماعتیں متحد ہوئیں۔ بےنظیر کی برطرفی کےبعد 1997 میں عام انتخابات ہوئے،جس میں نواز شریف اور ان کی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) نے دو تہائی اکثریت حاصل کی۔
نواز شریف کی حکومت نے اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتےہوئے 58 ٹو بی کی طاقتور شق کو ختم کرنےکا فیصلہ کیا تاکہ آئندہ صدور منتخب حکومتوں کو آسانی سے برطرف نہ کرسکیں۔اس تبدیلی کے عد پاکستان میں سیاسی استحکام کی ایک نئی امید پیدا ہوئی، لیکن اس کے باوجود کچھ عرصےبعد مختلف سیاسی تنازعات نے پھر سر اٹھالیا۔
بےنظیر حکومت کے خاتمے کےبعد ملک میں سیاست میں مختلف دھڑےبازیوں اور سیاسی اختلافات میں اضافہ ہوا۔ بےنظیر کو جلاوطنی اختیار کرنا پڑی جب کہ ان کے شوہر کو طویل عرصہ جیل میں رہناپڑا۔پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کےدرمیان تلخیاں بڑھتی گئیں،جو بعد میں میثاق جمہوریت کےنام سے ایک معاہدے کےذریعے ختم ہوئیں اور دو سیاسی حریف جمہوری ایجنڈا پر متحد ہوئے۔ یہ معاہدہ 2006 میں دونوں جماعتوں نے جمہوریت کے استحکام اور غیرجمہوری اقدامات کی مخالفت کےلیے کیا۔
بےنظیر حکومت کے خاتمے کےبعد کے ان واقعات نے پاکستانی سیاست کو ایک نئےرخ کی طرف موڑ دیا،جہاں جمہوری قوتوں کےدرمیان تعلقات میں پختگی اور مفاہمت کی راہیں ہموار ہوئیں۔