بلاول بھٹو زرداری، نئے عہد میں نئی سوچ کے معمار

تحریر…شرجیل انعام میمن

بشکریہ: روزنامہ جنگ

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی آج 36 ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے ۔ اپنے نانا شہید ذوالفقار علی بھٹو اور اپنی والدہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی طرح انہوں نے بھی کم عمری میں عالمی رہنماوں کی صف میں نمایاں مقام حاصل کر لیا ہے ۔ انہوںنے اپنی دانش اور اپنے وژن سے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ شہید بھٹو کے سیاسی سلسلے ( Political Dynasty ) کے حقیقی وارث ہیں اور وہ پاکستان پیپلز پارٹی کو عہد نو کے تقاضوں کے مطابق آگے لے جانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ 27 دسمبر 2007ء کو اپنی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے عظیم سانحہ کے بعد بلاول بھٹو زرداری کو صرف 19 سال کی عمر میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین کا منصب سنبھالنا پڑا ۔ یہ ایک ایسی ذمہ داری ہے ، جس میں صرف خطرات ہی خطرات ہیں ۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی میں وراثتی سیاست ہے ، وہ لوگ اس بات کو کیوں نظر انداز کر دیتے ہیں کہ یہ سیاسی ورثہ سنبھالنا جان جوکھوں کا کام ہے ۔ بلاول بھٹو زرداری کے والد صدر آصف علی زرداری خود بھی ایک زیرک سیاست دان ہیں اور ان کے مخالفین بھی ان کی سیاسی بصیرت کے قائل ہیں ۔ جب بلاول بھٹو زرداری کو پاکستان پیپلز پارٹی کا چیئرمین بنایا گیا تھا ، اس کے کچھ دن بعد ایک ٹی وی انٹرویو میں صدر آصف علی زرداری نے کہا تھا کہ بلاول کو شہادتوں کا یہ ورثہ سونپے جانے کے حوالے سے اس باپ کے احساسات کو سمجھیں جس کا صرف ایک ہی بیٹا ہو ۔ یہ ہم نے صرف اس لیے کیا ہے کہ شہید بھٹو اور شہید بی بی کے مشن کو جاری رکھ سکیں ۔ بلاول بھٹو زرداری نے ایک ایسے سیاسی خانوادے میں جنم لیا، جو مسلسل ابتلاء ، مصائب اور المیوں کا شکار رہا ۔ ان کی پیدائش سے پہلے ہی ان کی والدہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف اور جمہوریت کی بحالی کے لیے طویل اور کٹھن جدوجہد سے گزر رہی تھیں ۔ بلاول بھٹو زرداری کی پیدائش کے بعد بھی شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی یہ جدوجہد جاری رہی ۔ بلاول بھٹو زرداری نے اپنے بچپن سے ہی اپنی والدہ کو سیاسی مصروفیات کے ساتھ ساتھ جھوٹے مقدمات کا سامنا کرتے ہوئے تکلیف میں دیکھا ۔ انہوں نے اپنے بچپن میں ہی اپنے والد آصف علی زرداری کو طویل قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے دیکھا ۔ پھر اپنی والدہ کے ساتھ جلا وطنی کا عذاب بھی جھیلا ۔ ان ساری مشکلات نے انہیں نو عمری میں ہی ایک بالغ اور وسیع النظر سیاست دان بنا دیا ۔ پھر جب حالات نے انہیں پاکستان جیسے سیاسی طور پر خطرناک ملک میں ایک عوامی جمہوری سیاسی جماعت کی قیادت سونپی تو وہ اس ذمہ داری کو نبھانے کا مکمل ادراک حاصل کر چکے تھے ۔ اسی سیاسی دانش اور تدبر کی بنیاد پربلاول بھٹو زرداری کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ وہ پاکستان کے سب سے کم عمر وزیر خارجہ بنے ۔ 2022ء میں جب انہوںنے یہ منصب سنبھالا تو ان کی عمر صرف 34 سال اور 3 ماہ تھی ۔ اس سے پہلے یہ اعزاز شہید ذوالفقار علی بھٹو کے پاس تھا ۔ وہ 1963 ء میں جب پاکستان کے وزیر خارجہ بنے تھے تو اس وقت ان کی عمر 35سال تھی ۔ اس پالیسی کو آگے بڑھاتے ہوئے کئی بریک تھرو کئے اور عالمی سطح پر اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا لوہا منوایا ۔ بلاول بھٹو زرداری نے جب وزارت خارجہ کا اہم منصب سنبھالا تو اس وقت پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والی زبردست تباہی کا شکار تھا ۔ بلاول بھٹو زرداری نے پہلی مرتبہ دنیا کویہ احساس دلایا کہ ترقی یافتہ اور صنعتی ممالک کی وجہ سے ہونے والی خطرناک موسمیاتی تبدیلیوں سے پاکستان سمیت دنیا کے جو دیگر ترقی پذیر ممالک تباہ کاریوں کا شکار ہیں ، ان کا ان خطرناک موسمیاتی تبدیلیوں میں کوئی حصہ نہیں ہے ۔ انہوں نے ترقی یافتہ دنیا کو اس بات پر قائل کیا کہ وہ خطرناک موسمیاتی تبدیلیوں کے مقابلے کے لیے خرچ کی جانے والی رقوم کا زیادہ حصہ ان ترقی پذیر ممالک کو دیں ، جو تباہ کاریوں کا شکار ہیں ۔ انہوں نے اس حوالے سے پاکستان کے لیے ایک فنڈ بھی قائم کرایا ، جس میں’’ سی او پی 27 ‘‘ میں متعارف کرایا جانے والا فنڈ اور مزید کئی دوسرے رعایتی نرخوں پر دیئے جانے والے قرض اور کاربن کریڈٹ شامل ہیں ۔ اپنے نانا اور اپنی والدہ کی طرح بلاول بھٹو زرداری نے پاکستان کی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ خارجہ پالیسی کو بحال کرنے کے لیے انقلابی سفارت کاری کی ۔انہوں نے پاکستان کے عوام کے مسائل کی جدلیاتی بنیاد پر درست نشاندہی کرکے 2024 ء کے عام انتخابات میں اپنے 10 نکاتی قابل عمل پروگرام کا اعلان کیا اور’’ چنو نئی سوچ کو‘‘ کا نعرہ دیا ۔ انہی 10 نکات کو بنیاد بناتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کا 2024ء کا انقلابی انتخابی منشور مرتب کیا گیا ۔ یہ 10نکاتی پروگرام اور منشور پاکستان کو بحرانوں اور مسائل سے نکالنے کا دستاویزی سیاسی صحیفہ ہیں ۔ اس 10نکاتی پروگرام کا پہلا نکتہ یہ ہے کہ اجرت پر کام کرنے والوں کی آمدنی کو 5 سال میں دگنا اضافہ کیا جائے ۔ دوسرا نکتہ گرین انرجی کے ذریعہ توانائی کے بحران کے خاتمے اور لوگوں کو سستی بجلی مہیا کرنے سے متعلق ہے ۔ اس کے تحت ہر ضلع میں گرین انرجی پارکس قائم کرکے لاکھوں غریب گھرانوں کو 300 یونٹ بجلی ، سولر پینلز ، ونڈ پاور اسٹیشنز اور دیگر متبادل گرین انرجی کے ذرائع سے فراہم کی جائیں گی ۔ اس حوالے سے سندھ حکومت نے بڑے پیمانے پر کام شروع کر دیا ہے ۔ 10 نکاتی پروگرام کا تیسرا اور چوتھا ایجنڈا یہ ہے کہ تعلیم اور علاج کی مفت سہولتیں سب کو فراہم کی جائیں ۔ پانچواں نکتہ یہ ہے کہ 30 لاکھ غریب گھرانوں کو مالکانہ حقوق پر گھر تعمیر کرکے دیئے جائیں ۔ ’’اپنی زمین اپنا گھر‘‘ کے اس ایجنڈے کے تحت سندھ حکومت لاکھوں مکانات کی تعمیرکے لیے کام جاری رکھے ہوئے ہے ۔ پروگرام کا چھٹا نکتہ غربت کے خاتمے سے متعلق ہے ۔ اس کے تحت بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو مزید وسعت دی جائے گی تاکہ غریب خاندانوں کی مالی اعانت میں مزید اضافہ کیا جائے ۔ اس حوالے سے وسیلہ حق پروگرام ، وسیلہ تعلیم پروگرام ، وسیلہ روزگار پروگرام اور وسیلہ صحت پروگرام شروع کر دیئے گئے ہیں ۔ 10 نکاتی پروگرام کا ساتواں نکتہ کسانوں کی خوش حالی سے متعلق ہے اور اس حوالے سے کسان کارڈ جاری کئے جا رہے ہیں ۔ آٹھواں نکتہ مزدوروں اور محنت کشوں کی فلاح و بہبود کے لیے ہے ۔ اس حوالے سے مزدور کارڈ کا اجراء کیا جا رہا ہے ۔ اس کارڈ سے مزدور اور محنت کش اپنے بچوں کی اسکولز کی فیسیں ادا کر سکیں گے ۔ اپنے اور اہلخانہ کے لیے ہیلتھ انشورنس حاصل کر سکیں گے۔ انہیں پینشن اور سوشل سکیورٹی کے علاوہ اولڈ ایج بینیفٹ اور معذوری کی صورت میں ملنے والے بینیفٹ حاصل ہوں گے ۔ نواں نکتہ نوجوانوں کے لیے روزگار اور جدید تعلیم کے حصول سے متعلق ہے ۔ اس حوالے سے نوجوان کارڈ متعارف کرائے جائیں گے جبکہ دسواں نکتہ بھوک اور غذائی قلت کے خاتمے کے حوالے سے ہے ۔یہاں یہ بات واضح ہونی چاہئے کہ بلاول بھٹو زرداری کا یہ 10نکاتی پروگرام صرف سندھ کے لیے نہیں بلکہ پورے ملک کے لیے ہے۔ چونکہ سندھ اور بلوچستان میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومتیں ہیں ، اس لیے ان صوبوں میں اس پروگرام پر تیزی سے عمل درآمد ہو رہا ہے ۔ وفاقی حکومت میں پیپلز پارٹی ایک اتحادی کے طور پر شامل ہے اور وہ وہاں بھی یہ کوشش کر رہی ہے کہ اس پروگرام کو پنجاب اور خیبر پختونخوا کے ساتھ ساتھ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی توسیع دی جائے ۔ بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی نے ہر انتخابات میں پہلے سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے ، جو اس امر کا ثبوت ہے کہ بلاول بھٹو زرداری ہی شہید بھٹو کے سیاسی سلسلے کے حقیقی وارث ہیں۔

 

 

Back to top button