بالآخرعمران کا اپنی ٹکر کر کے لوگوں سے پالا پڑ ہی گیا

پاکستان کی طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ کا عمران خان کے سر سے دست شفقت ہٹنے کے بعد لاڈلے کو مشکلات نے ایسا آن گھیرا ہے کہ ہر تدبیر اُلٹی پڑتی نظر آرہی ہے۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ عمران کا پہلی بار واقعی اپنی ٹکر کے لوگوں سے پالا پڑا ہے۔ایسے میں سوال کیا جا سکتا ہے کہ جب جناب میں تیشہ اٹھانے کی سکت نہیں تھی تو پہاڑ سے ٹکر کیوں لی؟ یعنی امام حسین ماڑی سی تے لڑی کیوں سی؟

سینئر صحافی اور تجزیہ کار امتیاز عالم ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کے ممنوعہ فنڈنگ کیس سے دو ہاتھ بڑھ کر اب عمران اینڈ کمپنی کے خلاف فوجی جوانوں کو اپنی قیادت کے خلاف بغاوت پر اکسانے کا کیس بنتا نظر آرہا ہے۔ عمران خان نے فوجی اسٹیبلشمنٹ پر مسلسل وار کرتے ہوئے اسے دوبارہ تعلق قائم کرنے پر مجبور کرنے کی جو کوشش کی وہ ناکام ہو چکی ہے۔ اس لیے اب انہیں اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔ جن جماعتوں کو چوروں اور ڈاکوئوں کی جماعتیں قرار دیتے خان صاحب نہیں تھکتے، ان جماعتوں کے بانیوں کی قربانیوں اور استقامت سے کچھ سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ امتیاز عالم کہتے ہیں کہ جب شیخ مجیب الرحمان اور عوامی لیگ ملٹری آپریشن کے خلاف کھڑے ہوئے تو عوام نے تاریخ کا پانسہ پلٹ دیا۔ جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا دی گئی تو انہوں نے بڑھ کر پھندہ قبول کیا اور ہزاروں جیالے برس ہا برس قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے جمہوریت اور شہادت کے پروانے بن گئے۔ جب نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگی تو خان عبدالولی خان اور میر غوث بخش بزنجو بہادری سے کھڑے رہے اور سرخرو ہوئے۔ جب بے نظیر بھٹو دہشت گردوں کا نشانہ بنیں تو وہ خطرے کو بھانپتے ہوئے بھی انہیں للکارنے نکلیں تھیں اور جب تین بار کے منتخب وزیراعظم نواز شریف کو اقامہ کی بنیاد پر تاحیات نااہل کیا گیا تو وہ ملک واپس آ کر بیٹی کے ہمراہ قید کاٹنے اور پیشیاں بھگتنے کے لئے خندہ پیشانی سے کھڑے رہے۔

بقول امتیاز عالم، عمران خان کی تحریک انصاف کی طرح نواز شریف اور ن لیگ بھی مقتدرہ ہی کی پیداوار تھی، لیکن یہ آہستہ آہستہ اپنے دائمی سرپرستوں کی چھتر چھایا سے آزاد ہوتی چلی گئی۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ دونوں جماعتیں اور پیپلزپارٹی بھی باہم سیاسی چپقلش میں ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہوتی رہیں اور ہورہی ہیں۔ لیکن عمران خان کی سیاسی ٹریجڈی یہ ہے کہ متوسط طبقے کی وسیع تر حمایت کے باوجود وہ اپنے زور پر جمہور کی خود مختاری کا پرچم بلند کرنے سے نہ صرف ہچکچارہے ہیں بلکہ ’’نیوٹرلز‘‘ کی سرپرستی کی بحالی کے لئے گڑگڑا رہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ مڈل کلاس کا وہ غیر جمہوری اور آمریت نواز بیانیہ ہے جو یہ سیاسی طبقے کے خلاف دہائیوں سے استعمال کرتی رہی ہے۔ گویا ان کا ایجنڈا حقیقی جمہوریت کی جانب گامزن ہونے کا نہیں بلکہ آمرانہ قوتوں سے سمجھوتے کا ہے جس کا فی الوقت موقع محل نہیں۔ وہ کبھی اپنے حربی حلقہ اثر کو متاثر کرنے کیلئے ریڈ لائنز کراس کرنے کا رسک لیتے ہیں تو کبھی پائوں پڑ کر منت سماجت کرتے ییں۔ لیکن نتیجہ:ٹائیں ٹائیں فش! ان کے یہ دونوں حربے رائیگاں جاتے نظر آتے ہیں کیونکہ اب فوجی اسٹیبلشمنٹ خان پر اعتبار کرنے کے لئے تیار نہیں۔

امتیاز عالم کا کہنا ہے کہ عمران کے چیف آف اسٹاف شہباز گل کی بغاوت کیس میں گرفتاری خود ان کے لئے بھی ایک بڑا واضح پیغام ہے خصوصا ًموصوف کے رونے دھونے کی ویڈیوز سامنے آنے کے بعدگل کی گرفتاری پر عمران کے اضطراری ردعمل کے پیچھے یہ خوف پنہاں تھا کہ کہیں اُنہیں بھی بغاوت کیس میں ملوث نہ کر لیا جائے۔ بدقسمتی سے انہوں نے شہباز گل کے حق میں سڑکوں پر نکل کر اس ’’سازش‘‘ کی خود تکمیل کر دی ہے کہ تحریک انصاف اور فوج کو لڑایا جائے۔

عمران خان بطور اپوزیشن لیڈر کتنے خطرناک ثابت ہوں گے؟

امتیاز عالم کہتے ہیں کہ ہائبرڈ دور حکومت کی بھولی بسری یادوں میں گم کپتان اعتراف جرم کرتے ہوئے یہ کیوں بھول رہے ہیں کہ ان کی اپوزیشن ان پر ’’سلیکٹڈ‘‘ ہونے کا الزام لگاتی تھی۔ اب وہ خود اس الزام کو نہ صرف قبولیت بخش رہے ہیں بلکہ اسی ایک صفحے کی بحالی کیلئے رحم کی اپیلیں بھی کررہے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ مڈل کلاس کا وہ حلقہ جو ان کا بڑا داعی ہے ہمیشہ سے پرو ملٹری رہا ہے اور وہ اسے اکسا کر فوجی قیادت کے خلاف سڑکوں پر نہیں لاسکتے۔ نہ ہی عوامی دھنوں پہ ناچتے گاتے شائقین ریاست مدینہ کے احیا پہ راغب ہوسکتے ہیں اور نہ افواج سے جڑی قوم پرستی کے خلاف سینہ سپر ہوسکتے ہیں۔ دراصل عمران خان اور ان کی تحریک کی تین بڑی قوتیں ان کے گلے پڑگئی ہیں۔ اول، مڈل کلاس کا جو حلقہ ان کا حامی ہے، اس کا بیانیہ ہی سیاست مخالف ہے اور وہ عمران خان کی کرشمہ سازی کے اور پرکشش پہلوئوں کے علاوہ اس لئے بھی قائل ہیں کہ ان کا بت جمہوری سیاست کے خلاف گھڑا گیا تھا اور وہ جمہوری سیاست کے گورکن کے طور پر سامنے لائے گئے تھے۔ دوئم، شوکت خانم کے جس خیراتی ماڈل کو استعمال کرتے ہوئے انہوں نے پاکستان میں سیاسی فنڈ جمع کرنے کی زبردست مثال قائم کی، اس کے لبادے میں بڑے بڑے مفاد پرستوں کے ہاتھ ان کی مالی باگ ڈور چلی گئی۔ خیرات اور سیاست کے فنڈز گڈ مڈ ہوگئے اور حساب کتاب خراب ہوگیا۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے سے جو پی ٹی آئی کی مالیاتی خورد برد، بے ضابطگیوں اور ممنوعہ فنڈز کے گند کا ٹوکرا عمران کے سر پہ آن گرا ہے اس سے ان کا مالی شفافیت کا بت پاش پاش ہوگیا ہے۔ اوپر سے توشہ خانہ کے تحائف میں خورد برد، تحائف کا کوڑیوں کے مول حصول اور تحائف فروشی سے مالی فوائد حاصل کئے جانے اور پھر آمدنی سے چھپائے جانے کا سنجیدہ کیس، عمران کی صداقت و امانت کا بھانڈہ پھوڑنے کے لئے کافی ہے اور وہ اس الزام پر تاحیات نااہل قرار دیئے جاسکتے ہیں۔

امتیاز عالم یاد دلاتے ہیں کہ نواز شریف کو تاحیات نااہل کرانے میں عمران خان خود درخواست گزار تھے۔ اب اس کیس کا حوالہ ہی خان کو نواز شریف کی سنگت میں دھکیلنے کے لئے مثال بننے جا رہا ہے۔ اسلئے وہ اس سازش کا ذکر کر رہے ہیں جو انہیں نواز شریف کے مقدر کا ساتھی بنانے کے لئے کی جارہی ہے۔ سوم، پرانے دور کی جماعتوں اور ان کے ابلاغ کی صلاحیتوں کے برعکس، عمران خان نے سوشل میڈیا کی دلدادہ نوجوان نسل کو اپنی جانب راغب کیا اور ان کے درجنوں ترجمان اس سوشل میڈیا کو اس راہ پہ گامزن کرنے میں کامیاب ہو گئے جس کی نمائندگی شہباز گل بدرجہ اتم کرتے ہیں۔ گالی گلوچ، الزام تراشی، سکینڈل بازی اور جانے کیا کیا مغلظات ان ناپختہ ٹرولز کا بڑا ہتھیار بن گئیں اور عمران اور ان کی تحریک نے انکی بڑی پذیرائی کی۔ نتیجتاً اب تحریک انصاف کے ممنوعہ فنڈنگ کیس سے دو ہاتھ بڑھ کر ’’قومی سلامتی کو ٹھیس پہنچانے‘‘ کا کیس بنتا نظر آرہا ہے۔

امتیاز عالم کہتے ہیں کہ فوجی اسٹبلشمنٹ کا سایہ شفقت اٹھ جانے کے بعد اب عمران خان کے سامنے ایک ہی راستہ بچا ہے کہ جمہوریت کے استحکام، آئین کی حکمرانی اور سول ملٹری تعلقات کو سویلین حکمرانی کے لئے از سر نو تربیت دینے کے لئے پی ڈی ایم اور پی پی پی کو ان کے 26 نکاتی ایجنڈے پہ بات چیت کی دعوت دیں اور قومی اسمبلی میں واپس جائیں۔ آئندہ انتخابات پہ اتفاق رائے پیدا کرنے میں ہاتھ بٹائیں اور جمہوری راستہ اختیار کریں۔ ان کی اور ان کی جماعت کی بچت اب اسی میں ہے!

Back to top button