غیر سیاسی ہونے کی دعویدار بشریٰ بی بی نے PTI کی باگ ڈور سنبھال لی

ڈیل اور فارورڈ بلاک کی افواہوں کے دوران عمران خان کی اہلیہ بشری بی بی المعروف پنکی پیرنی نے پارٹی معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینا شروع کر دیا ہے۔ تاہم مبصرین کے مطابق اگرچہ عمران خان کی عدم موجودگی میں بشری بی بی سامنے آ کر ایک متحرک سیاسی کردار ادا کرسکتی ہیں تاہم طے یہ ہوا ہے کہ بشریٰ بی بی پیچھے رہ کر پارٹی سے متعلق اہم فیصلے کریں گی اور خود کو عوام کے سامنے غیر سیاسی رکھیں گی۔

 بشریٰ بی بی بظاہر تو پی ٹی آئی کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتی ہیں اور نہ وہ کیمرے پر آتی ہیں اور نہ ہی ابھی تک پارٹی کی جانب سے کبھی کہا گیا ہے کہ انہوں نے کسی اجلاس کی صدارت کی ہے۔ تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق بشریٰ بی بی پی ٹی آئی کی سیاست اور پارٹی کے فیصلوں پر اثر انداز ضرور ہوتی ہیں۔

مبصرین کے مطابق بشریٰ بی بی بظاہر سامنے تو نہیں آتیں تاہم گوگی کی طرح کے ان کے کارندے ہر حکومت کا حصہ ہوتے ہیں۔ جو اپنا حصہ وصول کرکے معاملات پنکی پیرنی سے طے کرواتے ہیں۔ بشری بی بی اگرچہ ان حقائق سے انکاری رہی ہیں تاہم حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی فیصلہ سازی میں ہمیشہ سے بشری بی بی کا اہم کردار رہا ہے۔ پچھلے دور میں پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی تعیناتی میں ان کا بڑا کردار تھا۔‘

تجزیہ کاروں کے مطابق عثمان بزدار پر پارٹی کے اندر اختلافات بھی موجود تھے لیکن بعد میں کچھ آڈیو لیکس میں یہ پتہ چلا تھا کہ عثمان بزدار کے ساتھ بشریٰ بی بی کھڑی تھیں۔ اس لئے ان کو تمام تر اختلافات، نااہلی اور مطالبات کے باوجود کوئی بھی عہدے سے ہٹا نہیں پایا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق اب بھی خیبر پختونخوا میں علی امین گنڈاپور کی تعیناتی میں بھی بشریٰ بی بی کی رائے شامل تھی۔ مبصرین کے مطابق ’اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بشریٰ بی بی کا پی ٹی آئی کے فیصلوں میں عمل دخل موجود ہے اور عمران خان بھی بشریٰ بی بی کی سنتے ہیں۔‘

تاہم اب سوال یہ ہے کہ خیبر پختونخوا کی حکومت جہاں علی امین گنڈاپور اقتدار میں ہیں یہاں بشریٰ بی بی کا کیا کردار ہوگا؟ اس سوال کے جواب میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا میں بشری بی بی کی موجودگی علی امین کے لیے کوئی نیک شگون نہیں ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ’بشریٰ بی بی عمران خان کے قریب ہیں اور اب ان کا فیصلہ عمران کا فیصلہ سمجھا جائے گا تو اسی صورت میں علی امین اب خود فیصلے یا کوئی پالیسی نہیں بنا سکیں گے۔‘

مبصرین کے مطابق اگر بشریٰ بی بی پشاور میں زیادہ عرصے کے لیے رہیں گی تو صوبائی حکومت کے فیصلوں میں ضرور ان کا عمل دخل ہوگا۔

تاہم یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ بشریٰ بی بی عمران خان کی اہلیہ تو ہیں لیکن اب ان کا پارٹی میں کوئی عہدہ نہیں تو کیا ان کے عمل دخل پر پارٹی قیادت میں اختلافات تو پیدا نہیں ہو سکتے؟ اس سوال کے جواب میں تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ ایسا ممکن نہیں کیونکہ پی ٹی آئی قیادت کو یہ ادراک ہے کہ ان کے عہدے عمران خان کی مرہون منت ہیں اور عمران خان کوئی بھی فیصلہ بشری بی بی کی رائے کے خلاف نہیں کرتے اس لئے اس بات کے امکانات معدوم ہیں کہ کوئی عمرانڈو رہنما پنکی پیرنی کی ہدایات کو چیلنج کرے گا۔

انہوں نے بتایا کہ ’یہ بات تو اب واضح ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی، پھر مرکزی پی ٹی آئی اور صوبوں کی قیادت کے مابین اختلافات موجود ہیں لیکن ہو سکتا ہے بشریٰ بی بی کی وجہ سے یہ اختلافات قدرے کم ہوجائیں۔تاہم علیمہ خان کی رہائی کے بعد پارٹی دو بڑے گروپوں پنکی پیرنی گروپ اور علیمہ خان گروپ میں تقسیم ہوتی ضرور دکھائی دیتی ہے۔‘

مبصرین کے مطابق ’عمران خان کے بعد پی ٹی آئی میں قیادت کا بحران پیدا ہوگیا ہے تاہم بشریٰ بی بی ہی کے بعد علیمہ خان کی رہائی سے پی ٹی آئی رہنما کنفیوژ رہینگے کہ وہ کس کے فیصلے کو عمران خان کا فیصلہ سمجھیں اور کس کے فیصلے کو ترجیح دیں ایسے میں پارٹی رہنماؤں میں اختلافات مزید شدید ہق سکتے ہیں۔

اکثر مبصرین بشریٰ بی بی کے سیاست میں متحرک ہونے اور پشاور میں ان کی موجودگی کو تحریک انصاف کے لئے نیک شگون نہیں سمجھتے، تاہم بعض دیگر تجزیہ کاروں کے مطابق بشری بی بی کی پشاور میں موجودگی علی امین کی ’جیت‘ ہے اور علی امین کو بشریٰ بی بی کی موجودگی سے فائدہ ہو گا۔ اس کی پہلی وجہ یہ کہ علی امین اب کوئی بھی فیصلہ کریں گے تو اس کو بشریٰ بی بی کی وجہ سے تقویت ملے گی اور اس پر ایک مہر سمجھی جائے گی۔  ’دوسری وجہ علی امین کی جیت اس لیے ہو گی کہ اب پنجاب کی قیادت علی امین کے فیصلوں پر تنقید نہیں کر سکے گی جس طرح پہلے کیا جاتا تھا۔

ان کا مزید کہنا ہےکہ اب خیبر پختونخوا میں عاطف خان اور ان کے حامی گنڈاپور کی صوبائی حکومت  سے اختلافات کے باوجود بشریٰ بی بی کی وجہ سے علی امین کی قیادت پر تنقید نہیں کر سکیں گے۔‘

خیال رہے کہ اسلام آباد کے حالیہ مارچ میں غائب ہو جانے کی وجہ سے علی امین شدید تنقید کی ذد میں تھے اور کہا جا رہا تھا کہ ان کو ڈی چوک میں کارکنان کو نہیں چھوڑنا چاہیے تھا لیکن مبصرین کے مطابق اب اس قسم کے مظاہروں کے فیصلے علی امین ہی کریں گے کیونکہ ان کو بشریٰ بی بی کی حمایت حاصل ہو گی اور کوئی ایسے فیصلوں کی مخالفت نہیں کر سکے گا۔

Back to top button