میاں صاحب کی نئی لڑائی کی تیاریاں
تحریر:انصار عباسی۔۔۔۔۔بشکریہ:روزنامہ جنگ
9 مئی کے پس منظر میں تحریک انصاف کو درپیش شدید مشکلات اور آئندہ انتخابات سے متعلق شکوک و شبہات کے باوجود مسلم لیگ ن کیلئےالیکشن اتنے آسان نہیں ہوں گے کیوں کہ گزشتہ سال عمران خان کی حکومت ختم کر کے پی ڈی ایم حکومت کا فوری الیکشن کی بجائے اسمبلی کی پوری مدت تک حکمرانی کرنے کے فیصلے نے ن لیگ کو خاص طور پر عوامی سطح پر تباہ کر دیاہے۔
مارچ اپریل 2022 کو جس غیر مقبولیت کا سامنا تحریک انصاف کو تھا اُس سے کہیں زیادہ آج ن لیگ غیر مقبول ہو چکی اور اس کی سب سے بڑی وجہ تاریخی مہنگائی اور معیشت کی بدحالی ہے۔
ان حالات میں ن لیگ نے اپنی ساری امیدیں نواز شریف کی واپسی سے منسلک کی ہوئی ہیں اور یہ کہا جا رہا ہے کہ میاں صاحب کی واپسی سے مسلم لیگ ن کا ووٹ بینک فعال ہو جائے گا۔
ایک بات تو طے ہے کہ اگر تحریک انصاف کو عمران خان کی نااہلی اور جیل میں ہونے کے باوجود انتخابات کیلئے کھلا میدان دیا جاتا ہے توبھی ن لیگ پنجاب میں پی ٹی آئی کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔
اس لئے جو نظر آ رہا ہے اُس کے مطابق پی ٹی آئی کو کھلا میدان نہ بھی ملے ن لیگ کو پولیٹکلی انجینئرڈ الیکشن میں کافی محنت درکار ہو گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا میاں نواز شریف صاحب اعلان کے مطابق 21 اکتوبر کو واپس لوٹتے ہیں کہ نہیں؟ ویسے تو خیال کیا جا رہا تھا کہ اب وہ واپس آ ہی جائیں گے لیکن نواز شریف کے حالیہ دو بیانوں نے شکوک پیدا کر دیے ہیں۔
نواز شریف اپنی پارٹی کی مقبولیت کے حصول کیلئے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ بنانا چاہ رہے ہیں۔ ن لیگی چاہتے ہیں کہ عوام شہباز شریف حکومت کا دور بھول جائیں اور بس نواز شریف کی 2013-17حکومت کو یاد رکھیں۔
میاں نواز شریف اُسی دور کی بات کرتے ہوئے جو بیانیہ بنانا چاہ رہے ہیں اُس کے مطابق موجودہ حالات کے ذمہ دار جنرل باجوہ، جنرل فیض، ثاقب نثار اور آصف کھوسہ ہیں۔ پارٹی رہنماؤں سے اپنے ایک حالیہ خطاب میں اُنہوں نے جسٹس اعجاز الاحسن کا بھی نام لیا اور کہا سازش کرنے والے اور اس پر عمل درآمد کرنے والے تمام کرداروں کو سزا دیے بغیر پاکستان ترقی نہیں کر سکتا۔
اس دوران میاں صاحب اور ن لیگ عوام سے یہ بھی توقع رکھتے ہیں کہ وہ اس حقیقت کو بھی بھول جائیں کہ اس سازش کے مرکزی کردار جنرل باجوہ کو 2019میں ایکسٹینشن دیتے وقت ن لیگ اور میاں نواز شریف کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ بہرحال یہ تو ہمیں پتا ہے کہ ہمارے ہاں سیاست میں کوئی اصول نہیں ہوتالیکن محسوس ہوتا ہے کہ میاں نواز شریف اور ن لیگ یہ نیا بیانیہ بناتے وقت ممکنہ خطرات کو نظر انداز کر رہے ہیں۔
اس بیانیہ کا مطلب یہ ہو گا کہ نواز شریف انتخابات کے نتیجے میں بننے والی اپنی ممکنہ حکومت کیلئے اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے ساتھ لڑائی کی بساط ابھی سے بچھا رہے ہیں۔
انتخابات کے نتیجے میں پاکستان کو سیاسی استحکام کی اشد ضرورت ہو گی جو پاکستان کی معیشت کہ بہتری کیلئے لازم ہے۔ تاہم جس راستے پر نواز شریف چلنا چاہ رہے ہیں وہ اُنہیں (اگر ن لیگ واقعی حکومت بنا لیتی ہے) پہلے دن سے اداروں کے ساتھ ایک جنگ میں جھونک دےگا۔
حکومت ملنے کے بعد اگر میاں صاحب اس بیانیہ کو بھلانا بھی چاہیں گے تو میڈیا اور اپوزیشن اُن کو سازش کرنے والوں کو سزا دینے کا وعدہ یاد دلاتے رہیں گے اور یوں معیشت جس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہو گی وہ سیاسی عدم استحکام کا ایک بار پھر شکار ہو جائے گی۔
ہمارا ماضی غلطیوں سے بھرا ہے ،چاہے وہ اسٹیبلشمنٹ ہو، عدلیہ یا سیاستدان۔ سب اپنی اپنی غلطیوں کو سدھاریں اور ماضی کی بجائے پاکستان کے حال پر توجہ دیں اور مستقبل کوسنواریں۔ ماضی میں پھنسے رہنے والے ماضی سے کبھی باہر نہیں نکل سکتے۔ ویسے بھی پاکستان موجودہ حالات میں مزید
خاور مانیکا ایئر پورٹ سے ایف آئی اے کے ہاتھوں گرفتار
لڑائیوں اور اداروں کے درمیان جھگڑوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔