شادی کے بعدانڈیا میں مقیم 150پاکستانی خواتین کی ملک بدری کا فیصلہ

22 اپریل کو مقبوضہ کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام پر ہونے والے ایک حملے میں 26 افراد کے قتل کے بعد جہاں پاک بھارت سفارتی و تجارتی تعلقات منقطع ہو چکے ہیں وہیں دوسری جانب مودی سرکار نے کئی دہائیوں سے بھارت میں مقیم پاکستانیوں کی ملک بدری کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے۔ جس کے تحت نہ صرف شادی کر کے لمبے عرصے سے بھارت یا مقبوضہ کشمیر میں مقیم خواتین کو پاکستان بھجوایا جا رہا ہے بلکہ بھارت کی جانب سے انسانیت سوز اقدامات کرتے ہوئے مریضوں کو بھی بغیر علاج کئے بھارت بدر کیا جا رہا ہے۔ مودی حکومت کے جارحانہ اقدامات سے جہاں بہت سے زندگیاں متاثر ہوئیں وہیں کئی خاندان بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکے ہیں۔
مبصرین کے مطابق پہلگام واقعہ کے بعد بھارتی حکومت نےسخت پالیسی اپناتے ہوئے پاکستانی شہریوں کو فوری وطن واپس بھیجنے کا حکم جاری کیا، جس کا سب سے زیادہ دھچکہ ان خواتین کو لگا جو گذشتہ کئی سالوں سے مقبوضہ کشمیر سمیت بھارت کے مختلف حصوں میں پرسکون زندگی گزار رہی تھیں۔ ان میں سے اکچریتی تعداد ان خواتین وحضرات کی ہے جو 2010 میں حکومتی اعلان کردہ آبادکاری پالیسی کے تحت اپنے شوہروں کے ساتھ پاکستان سے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر آئی تھیں۔ یہ پالیسی ان کشمیری نوجوانوں کے لیے تھی جو ماضی میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر گئے تھے، لیکن ہتھیار چھوڑ کر اپنے وطن واپس آنا چاہتے تھے۔ تاہم آج مودی سرکار کے انسانیت مخالف اقدامات کی وجہ سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں تقریباً 150 ایسی خواتین ہیں جو اپنی زندگی کے دوراہے پر کھڑی ہیں، جن کے پاس آگے جانے کا نہ کوئی راستہ، نہ ہی پیچھے ہٹنے کی ہمت۔
مبصرین کے مطابق کشمیر میں رہنے والے پاکستانی شہریوں کی تین قسمیں ہیں۔ ایک وہ جو ماضی کی جنگوں کے دوران یہاں آئے، دوسرے وہ جو رشتہ داروں سے ملنے کے لیے آئے لیکن واپس نہ جا سکے اور یہیں آباد ہو گئے اور تیسری قسم ان خواتین کی ہے جنھوں نے ایل او سی پار کر کے پاکستان کے زیرانتظام کشمیر جانے والے کشمیری نوجوانوں سے شادی کی تھی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق سنہ 2010 میں سینکڑوں کشمیری نوجوانوں کو ایک سرکاری سکیم کے تحت واپس آنے کی اجازت ملی تو ان کے ہمراہ پاکستانی بیویاں اور بچے بھی تھے۔ تاہم ان خواتین کو نہ یہاں شہریت ملی نہ انھیں اُس پار اپنے رشتہ داروں کے پاس جانے کی اجازت دی جاتی تھی اور پہلگام حملہ کے بعد انڈیا کی ڈیپورٹیشن مہم کا سب سے زیادہ اثر ان ہی خواتین پر پڑا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اگرچہ انڈیا اور پاکستان کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر کے دونوں حصوں کے لوگ کشمیری ہی کہلاتے ہیں اور تقسیمِ برِصغیر سے ہی ان کی حیثیت متنازع علاقے میں بسنے والے شہریوں کی ہے، تاہم پہچان اور سفری دستاویزات کے لیے یہ دونوں ملکوں پر انحصار کرتے ہیں۔
آزاد کشمیر کی ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس منظور گیلانی کا کہنا ہے کہ اگرچہ انڈیا یکطرفہ طور پر پورے کشمیر کو 1950 سے ہی اپنی ریاست قرار دیا ہے اور حال ہی میں آرٹیکل 370 کا خاتمہ محض انتظامی تبدیلی ہے۔انھوں نے بتایا کہ ’انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے باشندے آئینی طور انڈین شہری ہیں۔ تاہم پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں معاملہ قدرے مختلف ہے۔‘جسٹس ریٹائرڈ منظور گیلانی کے مطابق ’پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں رہنے والے لوگوں کے پاس اگرچہ پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ ہوتے ہیں لیکن یہ ایک سفری دستاویز سے زیادہ نہیں۔ یہاں رہنے والے باشندے پاکستانی شہری نہیں ہیں۔
جسٹس ریٹائرڈ منظور گیلانی نے بتایا کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں آرٹیکل کی شق 35 اے ون کے مطابق یہاں کے باشندوں کو سٹیٹ سبجیکٹ حاصل ہوتا ہے جو ان کے یہاں کی رہائشی ہونے کا دستاویزی ثبوت ہے۔ان کا کہنا تھا ’چونکہ قانونی طور پر کشمیری پاکستانی شہری نہیں ہیں اور اگر ان کے پاس کشمیر کی ریاست کا سٹیٹ سبجیکٹ ہے تو اصولی طور پر انڈیا کو انھیں پاکستانی قرار دے کر بے دخل نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ ان کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ تو محض سفری اور شناختی دستاویزات ہیں۔‘
بے دخلی کے انڈین فیصلے کے متاثرین کو حاصل قانونی تحفظ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ انڈیا کی سپریم کورٹ نے اپنے تازہ فیصلوں میں کچھ لوگوں کے پاس آدھار کارڈ اور دیگر دستاویزات کی موجودگی پر ان کی بے دخلی روک کر ان معاملات میں حکام کو نظرثانی کرنے کا حکم دیا ہے۔
کشمیری شہریوں کا خیال ہے کہ پاکستان اور انڈیا کے قوانین اور تنازعوں کا خمیازہ عام کشمیریوں اور ان کے منقسم خاندانوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔اس پر جسٹس منظور گیلانی کہتے ہیں کہ ’اقومِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قرارداد اور انڈیا اور پاکستان کی آزادی کے قانون کے تحت بھی کشمیریوں کے پاس صرف یہی آپشن ہے کہ وہ یا تو انڈیا کے شہری ہونے کا انتخاب کریں یا پاکستان کے، تیسری کوئی صورت نہیں۔‘تاہم ان کے مطابق ستم ظریفی یہی ہے کہ 78 سال سے یہی حقِ رائے دہی ہے جو کشمیریوں کو ٹھیک سے نہیں ملا۔ تاہم اس کا خمیازہ عوام کو اپنے خاندانوں کی جدائی کی صورت میں مل رہا ہے۔
ماضی میں آزاد کشمیر سے ہجرت کرکے مقبوضہ کشمیر جانے والے شہریوں کا اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا ہے کہ وہ انڈیا آنے کے بعد عام شہریوں کی طرح زندگی گزار رہے تھے۔ ان کے پاس آدھار کارڈ، ووٹر آئی ڈی اور ڈومیسائل سرٹیفکیٹ بھی موجود ہیں، جب کہ ان کے بچے یہاں سکولوں میں پڑھ رہے ہیں اور معاشرے میں گھل مل گئے ہیں۔‘ تاہم اب انھیں واپس پاکستان جانے کا کہا جا رہا ہے۔ مودی سرکار بتائے کہ وہ عوام اپنے بیوی بچوں کو بھارت یا مقبوضہ کشمیر میں تنہا چھوڑ کر واپس کیسے جا سکتے ہیں۔ اگر بھارتی حکومت نے ہمیں لازمی واپس بھجوانا ہی ہے تو ہمیں بیوی بچوں سمیت پاکستان جانے کی اجازت دی جائے۔
مبصرین کے مطابق بھارتی حکومت کی جانب سے جاری کردہ احکامات خاندانوں کے درمیان گہری دراڑ پیدا کر رہے ہیں۔ بچوں کو ان کی ماؤں سے جدا کیا جا رہا ہے۔‘ انھی حالات سے دوچار زاہدہ نامی ایک خاتون نے بتایا کہ ’ہم کشمیر میں امن سے زندگی گزار رہے ہیں، مقامی معاشرے میں گھل مل گئے ہیں، بچے سکولوں میں پڑھ رہے ہیں۔ ہم کبھی پاکستان نہیں گئے۔ اب ہمیں کہا جا رہا ہے کہ اس کی ماں اور بہنوں کو واپس جانا پڑے گا۔’ہمیں واپس پاکستان نہ بھیجا جائے۔
محمد رمضان وانی کی کہانی بھی ان سے مختلف نہیں۔ وہ 1993 میں پاکستان گئے اور 2014 میں اپنی بیوی اور بچوں کے ہمراہ انڈین کشمیر واپس آئے۔ ان کی اہلیہ کے نام پر بھی یہی نوٹس ملا ہے۔ ان کی اہلیہ عصمت نے جذباتی انداز میں کہا کہ ’بہتر ہے کہ اگر وہ ہمیں مار دیتے لیکن پاکستان واپس نہ بھیجا جائے ۔ کم از کم ہم مرنے کے بعد ساتھ ہی رہیں گے۔‘
کشمیر کی مقامی سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں نے اس معاملے پر حکومت پر کھل کر تنقید بھی کی ہے۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی۔ ایم) کے رہنما اور مقامی ایم ایل اے محمد یوسف تاریگامی نے اسے غیر انسانی قرار دیا اور کہا، ’جن خواتین کو آبادکاری کی پالیسی کے تحت بلایا گیا تھا اب ملک بدر کرنا بے حسی کی انتہا ہے۔انہیں زبردستی پاکستان بھیجنا ناانصافی ہے۔