کیا چئیرمین FBR کی تبدیلی کا فائز عیسیٰ کیس سے تعلق ہے؟

کپتان سرکار کی طرف سے ایک برس کے دوران پانچویں چئیرمین ایف بی آر کی تعیناتی کو بے وقت اور معیشت دشمن قرار دیا جا رہا یے اور یہ سوال بھی کیا جا رہا ہے کہ کیا اس تبدیلی کی ایک وجہ ایف بی آر کے پاس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کا ہونا ہے۔
مسلسل تبدیل ہوتی ہوئی معاشی پالیسیوں، غیر حقیقی ریونیو ٹارگٹس اور سرمایہ کاروں کی بد اعتمادی کی وجہ سے محصولات کے اہداف کے حصول میں مسلسل ناکامی کے شکار وفاقی بورڈ آف ریونیو کا کپتان ایک بار پھر تبدیل کرتے ہوئے نوشین امجد کی جگہ جاوید غنی کو عارضی بنیادوں پر تین ماہ کیلئے اس عہدے کا اضافی چارج سونپ دیا گیس ہے۔ معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹیکس اہداف کے حصول کیلئے عارضی بنیادوں پر تعیناتی کی بجائے مستقل طور پر کسی تجربہ کار شخص کو ایف بی آر کی سربراہی سونپی جانی چاہیے۔
دوسری طرف سیاسی تجزیہ کار فوری طور پر چئیرمین ایف بی آر کی تبدیلی کو سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے کیس کے ساتھ جوڑتے نظر آتے ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 19 جون کو سپریم کورٹ کے 10 رکنی بینچ نے جسٹس فائز عیسیٰ کے حوالے سے دائر صدارتی ریفرنس کا معاملہ ایف بی آر کو بھیجتے ہوئے ہوئے دوماہ میں اس معاملے کو نتیجے پر پہنچا کر اس کی رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجنے کا حکم دے رکھا ہے۔ اس لئے کپتان سرکار نے مزید کسی ہزیمت سے بچنے کیلئے چئیرمین ایف بی آر کو تبدیل کر دیا ہے تاکہ ایف بی آر سے من پسند فیصلہ حاصل کیا جا سکے۔ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں پانچویں مرتبہ ایف بی آر کے چیئرمین کی تعیناتی کو معاشی ماہرین حکومت کا غیر مستحسن فیصلہ قرار دے رہے ہیں جبکہ دوسری طرف وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز کا کہنا ہے کہ سابق چیئرمین شبر زیدی کے عہدہ چھوڑنے کے بعد سے اب تک ایف بی آر کو ’سٹاپ گیپ ارینجمنٹ‘ کے تحت چلایا جا رہا تھا۔ شبر زیدی کے بعد نوشین جاوید کی تعیناتی کی گئی کیونکہ حکومت چاہتی تھی کہ ادارے کی پرفارمنس بہتر ہو۔ چونکہ موجودہ صورتحال میں ایف بی آر کو دیے گئے محصولات جمع کرنے کے اہداف کافی چیلنجنگ ہیں اس لیے جاوید غنی کو یہ ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ حکومتی ٹارگٹس کو پورا کر سکیں۔‘
تاہم معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت اس معاملے میں کنفیوژن کا شکار ہے کیونکہ جاوید غنی کی تعیناتی بھی مستقل بنیادوں پر نہیں ہوئی بلکہ انھیں بھی چیئرمین ایف بی آر کا اضافی چارج دیا گیا ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ جاوید غنی کی تعیناتی بھی سٹاپ گیپ ارینجمنٹ ہے اور یہ ثابت کرتی ہے کہ فی الحال حکومت کی نظر میں کوئی ایسا آفیسر نہیں ہے جسے مستقل بنیادوں پر اس پوسٹ پر تعینات کیا جا سکے۔ ٹیکس ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ ایف بی آر کا سٹرکچر بہت پیچیدہ ہو چکا ہے اور اداری کی پالیسیوں میں عدم تسلسل کی وجہ سے پرائیویٹ سیکٹر کا ادارے پر اعتماد بہت کم ہو چکا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایف بی آر کے مقرر کردہ ٹیکس وصولی کے ٹارگٹ غیر حقیقی ہیں۔ دو سال میں پانچ بار چیئرمین کی تبدیلی یہ واضح اشارہ ہے کہ حکومت میں ادارے کے ڈھانچے میں تبدیلی لانے کی صلاحیت کم ہے اور وہ فقط شخصیات کے ذریعے اس ادارے کو چلانا چاہ رہی ہے، یہ سب ایڈہاک بنیادوں پر چل رہا ہے ان کا مزید کہنا ہے کہ حکومت ایف بی آر کی اہمیت پر زور دیتی ہے اور مسائل پر بات تو کرتی ہے لیکن ایک مناسب منتظم اس ادارے میں نہیں لگا پا رہی جو ایک مناسب مدت تک کام کرے۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایف بی آر حکومت کا ڈیپارٹمنٹ یا ڈویژن نہیں کہ ایک سیکرٹری آیا اور دوسرا چلا گیا لیکن کام چلتا رہے گا۔ اس شخص میں ادارے کے بارے میں علم، قوانین اور کام کی سمجھ و آگاہی ہونا ضروری ہے جو جلدی پیدا نہیں ہو سکتی۔ اگر آپ ایف بی آر کے اندر کا بندہ بھی لگائیں تو اسے بھی سمجھنے میں کچھ وقت لگتا ہے ۔پانچ چھ مہینوں میں تو وہ اپنے آپ کو اس لیول پر لے کر آتا ہے کہ وہ چیئرمین کے طور پر ایکٹ کرے پھر پالیسیاں بنتی ہیں اور ان پر عملدرآمد ہوتا ہے اس عہدے کے لیے دو سے تین سال ایک ہی شخصیت کی تعیناتی اہم ہوتی ہے لیکن یہاں اب تک پانچ چئیرمین تبدیل ہو چکے ہیں جو حکومت کی غیر سنجیدگی کو ظاہر کرتے ہیں۔‘ معاشی ماہرین کا ماننا ہے کہ ایف بی آر کا چیئرمین معاشی ٹیم کا اوپنگ بیٹسمین ہوتا ہے جس نے ریونیو دینا ہوتا ہے۔ اس لئے حکومت کو کسی تجربہ کار آدمی کو بطور چئیرمین تعینات کر کےاسے مکمل سپورٹ کرنا چاہیے، اسے ٹارگٹ اور وقت دے تاکہ وہ کارکردگی دکھا سکے مختصر مدت کیلئے اتنی اہم پوسٹ پر نئی نئی تعیناتیوں سے ادارے کی رہی سہی ساکھ بھی ختم ہو جائے گی۔