اسلام آباد دھرنا کےلیے بانی پی ٹی آئی کی ” فائنل کال”

تحریر : نصرت جاوید

بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت

عمران خان کے اندازِ سیاست کے بارے میں ہزاروں تحفظات کے باوجود ایک حقیقت کھلے دل سے تسلیم کرتا ہوں اور وہ یہ کہ موصوف ’’آتشِ عشق‘‘ میں بے خطر کودنے کے عادی ہیں۔ عقل کے ضرورت سے زیادہ استعمال کی بدولت ان کے کئی اقدامات کو میں نے سیاسی اعتبار سے کئی بار خودکش شمار کیا۔ وزارت عظمیٰ سے تحریک عدم اعتماد پر گنتی کی وجہ سے فراغت کے بعد ان کا قومی اسمبلی سے اپنی جماعت کو باہر نکالنا ایسے فیصلوں میں سرِ فہرست تھا۔ پنجاب اور خیبرپختونخواہ اسمبلیوں کی ان کی ’’ضد‘‘ کی وجہ سے تحلیل بھی میری دانست میں ایک غیر منطقی فیصلہ تھا۔ ایسے تمام فیصلوں کے باوجود عمران خان کے جیل میں ہوتے ہوئے بھی اپنے معروف انتخابی نشان بلے سے محروم ہوئی تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں نے 8فروری 2024ء کے روز ہوئے انتخاب کے دن اپنے سیاسی مخالفین کو چونکا دیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ اپنی حمایت میں ڈلے حیران کن ووٹوں کی تعداد کے باوجود سیاسی اعتبار سے تحریک انصاف دیوار ہی سے لگی ہوئی ہے۔ حکومت کو 26ویں آئینی ترمیم سے روک نہ سکی اور نہ ہی عزت مآب جسٹس منصور علی شاہ کی بطور چیف جسٹس تعیناتی یقینی بناسکی ہے۔
خان صاحب کے ’’بے خطر‘‘ اقدامات کے نتائج کی ملی جلی تاریخ کو ذہن میں رکھتے ہوئے بھی میرا عقل کا غلام دل یہ لکھنے کو مجبور محسوس کررہا ہے کہ بدھ کے روز اپنی بہن علیمہ خان صاحبہ کے ذریعے انہوں نے جو ’’فائنل کال‘‘ دی ہے وہ غالباً مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر پائے گی۔ تحریک انصاف کے بانی نے اپنے عاشقان کو حکم دیا ہے کہ وہ ’’آخری معرکہ‘‘ کےلیے رواں مہینے کی 24تاریخ کے دن گھروں سے باہر نکل آئیں۔ گھر سے باہر آکر اسلام آباد کا رخ کریں اور اس شہر پہنچ کر اس وقت تک واپس نہ جائیں تب تک تحریک انصاف کے چار نکات پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ جن چار نکات کا ذکر ہے ان میں حال ہی میں پاس ہوئی 26ویں آئینی ترمیم کا خاتمہ سرِ فہرست ہے۔ اسلام آباد پہنچ کر 2014ء کے نتائج دہراتے ہوئے تحریک انصاف کے کارکن مگر حقیقتاً اپنے قائد کی فوری رہائی ہی کو بنیادی مطالبہ قراردیں گے۔
2014ء میں اسلام آباد آنے سے قبل عمران خان نے اس کےلیے بھرپور ہوم ورک کیا تھا۔ 2013ء کے انتخاب سے قبل وہ حادثے کا شکار ہوکر اسپتال تک محدود ہوگئے تھے۔ صحت یاب ہونے کے بعد قومی اسمبلی آئے تو قومی اسمبلی کے فقط چار حلقوں کے انتخابی نتائج کے جائزے کا مطالبہ کیا۔ چار حلقوں سے بات ’’35پنکچروں‘‘ تک پہنچی۔ دریں اثناء کینیڈا میں براجمان ہوئے طاہر القادری بھی ان کے ’’کزن‘‘ بن کر ’’سیاست نہیں ریاست بچانے‘‘ کےلیے پاکستان آگئے۔ دونوں ’’کزن‘‘ لاہور سے چلے اور تمام رکاوٹیں بآسانی عبور کرتے ہوئے اسلام آباد کے ’’ریڈزون‘‘ میں داخل ہوگئے۔ یہاں پڑائو کے دوران پی ٹی وی پر حملہ بھی ہوا۔ قومی اسمبلی، سپریم کورٹ اور وزیر اعظم ہائوس کی عمارتیں ہمہ وقت ہنگامی حالت میں مقید ہوکر رہ گئیں۔ طاہر القادری کے کارکنوں نے سو سے زیادہ دن گزرجانے کے بعد اپنے لیے ریڈزون میں قبریں کھودنا شروع کردیں۔ چند دن بعد مگر پشاور کے اسکول میں دہشت گردی کا ہولناک واقعہ ہوگیا۔ اس کی وجہ سے دھرنا ختم ہوا اور عمران خان نواز شریف حکومت سے جنڈ چھڑانے کےلیے پانامہ دستاویزات کے منظر عام آنے تک مایوس وبے چین نظر آتے رہے۔
2014ء کے دھرنے کی ناکامی یاد دلانے کی وجہ درحقیقت اس کیلئے ہوئی طویل تیاری تھی۔ بھرپور تیاری کے باوجود مگر وہ دھرنا اپنا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہا تھا۔ 24نومبر کے دھرنے کی جو کال دی گئی ہے اس کےلیے نظربظاہر مناسب تیاری بھی نہیں ہوئی ہے۔ چند ہی ہفتے قبل خیبرپختونخواہ سے جذباتی کارکنوں کا ایک بڑا لشکر لے کر وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور اسلام آباد آئے تھے۔ یہاں آتے ہی مگر وہ ’’غائب‘‘ ہوگئے اور پاکستان کے خیبرپختونخواہ کے علاوہ دیگر صوبوں کے قصبوں سے آئے تحریک انصاف کے بے شمار کارکن ریڈزون میں پولیس کی لاٹھیوں اور آنسو گیس کا سامنا کرتے رہے۔ 9مئی 2023ء کے واقعات کے بعد سے تحریک انصاف کے نمایاں کارکن خیبرپختونخواہ کے علاوہ دیگر صوبوں میں انتہائی مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔ عمران خان کی رہائی کی خاطر پنجاب کے کسی بھی شہر میں ہوا جلسہ مقامی قیادت کو عذاب میں مبتلا کردیتا ہے۔ آبادی کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے سے قومی اسمبلی کےلیے تحریک انصاف کی حمایت سے منتخب ہوئے اراکین اسمبلی اپنے حلقوں میں رہنے کے بجائے اسلام آباد کے ان فلیٹوں تک محدود رہتے ہیں جو منتخب نمائندوں کےلیے تعمیر ہوئے ہیں۔ مقامی قیادت کی عدم موجودگی میں کارکنوں سے یہ امید باندھنا میری دانست میں غیر منطقی ہونے کے علاوہ زیادتی بھی ہے کہ وہ ازخود گھروں سے نکلیں اور کسی نہ کسی طرح اسلام آباد پہنچ کر یہاں سے واپس جانے کا نام نہ لیں۔

کارکنوں کو ان کے گھروں سے اسلام آباد لانے کےلیے بہت کچھ کرنا ہوتاہے۔ اس کےلیے بنیادی ضرورت ٹرانسپورٹ ہے جس کے حصول کیلئے سرمایہ درکار ہے۔ سرمایہ میسر ہو بھی جائے تو کارکنوں کو پنجاب کے مختلف شہروں سے کاررواں کی صورت اسلام آباد تک پہنچانا ان دنوں ناممکن دکھائی دے رہا ہے۔لشکر کی صورت فقط ایک بار پھر علی امین گنڈاپور ہی پشاور سے اسلام آباد آسکتے ہیں۔ ان کے لائے قافلے کو مگر اٹک پر روک لیا جاتا ہے اور آخری مرتبہ یہ خدشہ بھی شدید سے شدید ترہوتا رہا کہ معاملہ حد سے بڑھا تو ’’مقابلہ‘‘ تحریک انصاف کے کارکنوں اور پنجاب پولیس کے مابین ہی محدود نہیں رہے گا۔ بالآخر وہ مقام بھی آسکتا ہے جہاں دونوں صوبوں کی پولیس میرے اور آپ کے دئے ٹیکسوں سے خریدی آنسو گیس اور گولیاں متحارب قبائل کی طرف ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنا شروع کریں۔
غالباً اسی امکان سے گھبرا کر علی امین گنڈاپور ڈرامائی انداز میں اٹک کے قریب اپنے قافلے کو چھوڑ کر ’’اچانک‘‘ اسلام آباد کے ریڈ زون میں واقع خیبرپختونخواہ ہاؤس پہنچ گئے۔ یہاں چند گھنٹے گزارنے کے بعد ’’غائب‘‘ ہوگئے اور کئی گھنٹوں تک پھیلے تذبذب کے بعد بالآخر پشاور پہنچ کر وہاں ہنگامی طورپر بلائے صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں نمودار ہوگئے۔
میں یہ سمجھنے میں قطعاً ناکام ہورہا ہوں کہ اب کی بار علی امین گنڈاپور کس طرح اپنے لشکر کی ہر صورت اسلام آباد آمد یقینی بنائیں گے اور لاکھوں نہ سہی ہزاروں افراد کی رہائش اور کھانے پینے کا بندوبست کریں گے۔ تحریک انصاف کے وہ ذرائع جن پر میں اعتماد کرتا ہوں بتارہے ہیں کہ خان صاحب سے اڈیالہ میں ملاقاتیں کرنے والوں کی اکثریت نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ وہ ’’فائنل کال‘‘ دینے سے قبل تحریک انصاف کے رہ نمائوں اور مقامی قیادتوں کو چند ہفتوں تک تیاری کا موقع دیں۔ اسلام آباد آنے کےلیے 24نومبر کے بجائے 25دسمبر کی تاریخ مناسب بتائی گئی۔ قائد اعظم کے یوم پیدائش کو ’’آخری معرکے‘‘ کےلیے تجویز کرنے کے علاوہ مشورہ خان صاحب کو یہ بھی دیا گیا کہ وہ تحریک انصاف کے کارکنوں کو حکم دیں کہ وہ 20جنوری 2025ء کے روز اسلام آباد پہنچیں۔ اس روز امریکہ کے نو منتخب صدر ٹرمپ نے اپنے عہدے کا حلف لینا ہے۔ اس روز اگر عاشقان عمران لاکھوں کی تعداد میں اسلام آباد پہنچ کر اسے ’’التحریر اسکوائر‘‘ میں تبدیل کردیں تو ٹرمپ فون اٹھاکر حکومتِ پاکستان سے ان کی رہائی کا مطالبہ کرنے میں آسانی محسوس کرسکتا ہے۔

خان صاحب نے مگر اپنی جماعت کی جانب سے تجویز کردہ دن ردکرکے ازخود 24نومبر کا انتخاب کیا ہے۔ اس دن کا انتخاب انہوں نے کیوں کیا ہے؟۔ اس سوال کا جواب ان کے قریب ترین شخص کے پاس بھی موجود نہیں ہے۔ حکومت کو مگر دس دن مل گئے ہیں جن کے دوران وہ تحریک انصاف کے ممکنہ دھرنے کو ناکام بنانے کیلئے کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہ کرے گی۔

Back to top button