الزامات ثابت ہونے پر جنرل فیض کو عمر قید یا موت کی سزا کا امکان

آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو تحویل میں لے کر ان کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کرنے کے اعلان  کے بعد سیاسی حلقوں میں یہ سوال زیر بحث ہے کہ جنرل فیض حمید پر الزامات ثابت ہونے کے بعد انھیں کیا سزا دی جا سکتی ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق کسی بھی حاضر سروس یا ریٹائرڈ فوجی آفسر کو 35 اقسام کے جرائم پر سزا ہو سکتی ہے۔ ان میں ملک دشمنوں سے تعلق، جس ملک میں تعینات ہوں وہاں کے رہائشیوں یا جائیداد کے خلاف سرگرمیاں، کسی کے گھر پر لوٹ مار کی غرض سے چھاپہ، اور دیگر کئی جرائم شامل ہیں۔ تاہم جنرل فیض حمید پر اختیارات سے تجاوز کے الزامات پر انھیں قید اور مراعات کی ضابطگی کی سزا سنائی جا سکتی ہے تاہم فوج میں بغاوت کا سنگین الزام ثابت ہونے پر انھیں عمر قید یا پھانسی کہ سزا بھی دی جا سکتی ہے

 پاکستان آرمی ایکٹ کے آرٹیکل 80 کے مطابق کورٹ مارشل کی چار مختلف اقسام ہیں جن میں جنرل کورٹس مارشل، ڈسٹرکٹ کورٹس مارشل، فیلڈ جنرل کورٹ مارشل اور سمری کورٹس مارشل شامل ہیں۔وفاقی حکومت یا آرمی چیف کے حکم پر کسی آفسر کو فیلڈ کورٹ مارشل بلانے کا اختیار حاصل ہوتا ہے اور فیلڈ جنرل کورٹ مارشل میں کم از کم تین افسروں کا ہونا لازمی ہے۔

آرمی چیف بننے کے خواب دیکھنے والا فیض کورٹ مارشل تک کیسے پہنچا

کورٹ مارشل میں سزاؤں سے متعلق پاکستان آرمی ایکٹ کے آرٹیکل 60 میں تفصیلات درج ہیں۔پاکستان آرمی ایکٹ کے آرٹیکل 60 کے مطابق جرائم کے مرتکب افراد کو کورٹ مارشل کے ذریعے مختلف سزائیں دی جا سکتی ہیں۔کورٹ مارشل کے ذریعے سنگساری، سزائے موت، ہاتھ پاؤں کاٹنے اور عمر قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔اس ایکٹ کے مطابق قید کی سزا 25 سال اور زیادہ سے زیادہ ایک سو کوڑے اور کورٹ مارشل کے ذریعے نوکری سے نکالنے کی سزا بھی دی جا سکتی ہے۔اس کے علاوہ تمام الاؤنسز بھی ضبط کیے جا سکتے ہیں۔

کورٹ مارشل سے سزا ہونے کے بعد وفاقی حکومت یا آرمی چیف یا بریگیڈیئر رینک کا آفسر آرمی چیف کی اجازت سے مشروط یا غیر مشروط، پوری یا کچھ سزا معاف کر سکتا ہے مگر کوئی سزا جو حدود کے تحت دی گئی ہو، وہ نہ تو معاف کی جا سکتی ہے اور نہ ہی کم ہو سکتی ہے۔

خیال رہے کہ فیض حمید پاکستانی فوج کے تیسرے لیفٹننٹ جنرل ہیں جن کا کورٹ مارشل ہوا ہے۔ اس سے قبل لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ جاوید اقبال کو 30 مئی 2019 کو کورٹ مارشل کے ذریعے عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی، البتہ بعد میں یہ سزا معاف کر دی گئی اور 29 دسمبر 2023 کو انہیں رہا کر دیا گیا۔اس کے علاوہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی کا بھی کورٹ مارشل ہو چکا ہے۔ 22 فروری 2019 کو آئی ایس پی آر کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی پنشن اور دیگر مراعات کورٹ مارشل کے بعد ضبط کر لی گئی ہیں۔

تاہم یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جنرل فیض حمید کیخلاف کن جرائم کے تحت کیا کارروائی ہو سکتی ہے اور انھیں کتنی سزا سنائی جا سکتی ہے؟قانون دان امجد حسین شاہ کے مطابق ’آرمی ایکٹ کا سیکشن 31 فوجی افسران اور اہلکاروں کو بغاوت پر اکسانے سے متعلق کارروائی کی اجازت دیتا ہے۔ جبکہ سیکشن 40 مالی بدعنوانی اور فراڈ کے مرتکب فوجی اہلکاروں کے خلاف کارروائی سے متعلق ہے۔ اگر کسی بھی فوجی افسر یا اہلکار پر اس طرح کے الزامات ہوں تو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ان کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی ہو سکتی ہے۔‘

دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئرغضنفر علی کے مطابق ’آرمی کورٹس میں ملزم کا ٹرائل اسی طرح ہوتا ہے جس طرح آئینی عدالتوں میں ہوتا ہے۔ جنرل فیض کیونکہ افسر رہے ہیں اس لیے تین رکنی آرمی کورٹ کی سربراہی بھی بڑے رینک کا افسر کرے گا۔ اگر الزام ثابت ہوتا ہے تو آرمی ایکٹ کے تحت سخت سزا بھی سنائی جا سکتی ہے۔‘بریگیڈیئر ریٹائرڈ غضنفر علی کے مطابق ’جنرل فیض حمید پر اختیارات سے تجاوز کا جو الزام ہے یا آئی ایس پی آر نے آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی سے متعلق جو کہا، اس حوالے سے فوج میں مکمل نظام موجود ہے جس میں کورٹ مارشل کے ذریعے دونوں طرف کا موقف اور شواہد کی روشنی میں قانون کے مطابق فیصلے کیے جاتے ہیں۔‘

غضنفر علی کے بقول، ’جب کسی افسر کے خلاف کوئی شکایت آتی ہے تو پہلے اس کی انکوائری کی جاتی ہے پھر کورٹ مارشل کی سفارش ہوتی ہے۔ افسروں کے لیے کسی بڑے رینک کے افسر کی سربراہی میں تین رکنی ملٹری کورٹ تشکیل دے کر مقدمے کی سماعت ہوتی ہے۔ اس دوران ملزم کو بھی اپنے دفاع کا پورا حق دیا جاتا ہے جس میں وہ اپنی مرضی کا کوئی بھی وکیل دفاع بھی پیش کر سکتا ہے۔ تاہم الزامات اگر ثبوتوں اور گواہوں کی روشنی میں ثابت ہو جائیں تو سزا کا تعین کیا جاتا ہے۔ آرمی کورٹس میں کیس جلد از جلد نمٹا دیے جاتے ہیں۔‘

تاہم سابق وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل امجد حسین شاہ کے مطاب’ملٹری کورٹس میں سماعت آرمی کے اپنے دفاتر میں ہوتی ہے اور دوسرا یہ کہ آرمی کورٹ سے جرم ثابت ہونے پر فیصلہ نہیں سنایا جاتا بلکہ اس سے متعلق رپورٹ جیک برانچ کو بھیج دی جاتی ہے۔ یہ فوج کا عدالتی معاملات کے لیے بنایا گیا اپنا شعبہ ہے۔ آرمی کورٹ سے ملنے والی رپورٹ کی روشنی میں جیک برانچ ملزم کی آرمی ایکٹ کی لاگو ہونے والی شقوں کے مطابق سزا تجویز کرتی ہے۔ پھر مجاز اتھارٹی کی منظوری سے سزا کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔‘امجد شاہ کے بقول، ’آئی ایس پی آر کے بیان میں جو الزام فیض حمید پر لگائے گئے ہیں اگر وہ ثابت ہوجاتے ہیں تو انہیں سروس ختم کرنے، مراعات ختم ہونے اور قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ البتہ ان پر ریٹائرمنٹ کے بعد آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی یعنی ملکی سالمیت کے خلاف کام کرنے یا بغاوت کرنے کا جو الزام ہے، وہ بہت سنگین ہے۔ اگر یہ ثابت ہوتا ہے تو عمر قید یا سزائے موت بھی دی جا سکتی ہے۔‘

امجد شاہ نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’آرمی کورٹ سے سنائی جانے والی سزا کے خلاف پہلے آرمی چیف کو اپیل کی جا سکتی ہے، اگر وہاں سے مسترد ہو جائے تو ملزم کے پاس سپریم کورٹ سے رجوع کا حق بھی ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ اس فیصلے کو کالعدم بھی قرار دے سکتی ہے اور برقرار رکھنے کا اختیار بھی ہوتا ہے۔‘

Back to top button