آرمی چیف بننے کے خواب دیکھنے والا فیض کورٹ مارشل تک کیسے پہنچا

یوں تو سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کا نام 2017 میں تحریکِ لبیک پاکستان کے فیض آباد دھرنے کے دوران سامنے آیا۔ تاہم پاکستان تحریکِ انصاف کے دور میں اُن کی سیاست میں مبینہ مداخلت اور پی ٹی آئی کے ساتھ قربتوں کا چرچا رہا۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی طرف سے فیض حمید کا نام لے کر دباؤ ڈالنے کا الزام، پاناما کیس میں ججز کو کنٹرول کرنے کا الزام ہو یا پھر وزیراعظم ہاؤس میں وزیراعظم کی گفتگو ریکارڈ کرنے کا الزام ہر معاملے میں فیض حمید کا نام سامنے آتا رہا ہے۔پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سمیت پی ٹی آئی مخالف دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنما کئی مواقع پر لیفٹننٹ جنرل (ر) فیض حمید پر پی ٹی آئی کی حمایت کے الزامات عائد کرتے رہے ہیں۔ان جماعتوں کا یہ الزام رہا ہے کہ سن 2018 کے انتخابات میں جنرل فیض حمید اور سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے تحریکِ انصاف کے اقتدار میں آنے کی راہ ہموار کی۔ تاہم جنرل باجوہ اور جنرل فیض اپنے قریبی ذرائع کے ذریعے ان الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔

تاہم سیاسی مبصرین سمجھتےہیں کہ جنرل فیض حمید کی گرفتاری اور کورٹ مارشل کی کارروائی شروع ہونا نہ صرف تحریکِ انصاف بلکہ دیگر سیاسی جماعتوں کے لیے بھی پیغام ہے۔

سینئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ جب عمران خان وزیرِ اعظم تھے تو اس وقت کئی مواقع پر یہ سامنے آتا رہا ہے کہ وہ فیض حمید کو آرمی چیف بنوانا چاہتے ہیں۔ لیکن اس حوالے سے واضح طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ آیا عمران خان ایسا چاہتے تھے کہ نہیں۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ عمران خان کے دورِ حکومت میں یہ قیاس آرائیاں بھی ہوتی رہیں کہ یہ ایک 12 سالہ منصوبہ ہے جس میں پہلے چھ سال جنرل باجوہ جبکہ باقی چھ سال جنرل فیض آرمی چیف رہیں گے۔اُن کے بقول جنرل فیض فوجی اور سیاسی حلقوں میں ‘ڈوور’ یعنی کر گزرنے والا کے طور پر مشہور تھے۔ لیکن کبھی کبھی یہ خصوصیت اُلٹی بھی پڑ جاتی ہے۔سہیل وڑائچ کے بقول جنرل فیض کے دور میں سیاسی مخالفین اور میڈیا سے وابستہ شخصیات کے ساتھ جو کچھ ہوتا رہا وہ سب کے سامنے ہے۔سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ جنرل فیض حمید کی گرفتاری سے ایک پیغام یہ بھی دیا گیا ہے کہ فوج یا مقتدرہ کی موجودہ قیادت اپنی صفوں میں بیٹھے کسی ایسے شخص کو بھی نہیں بخشیں گے جو ادارے کی پالیسی کے خلاف جائے گا۔سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ جب تقدیر کا پہیہ گھومتا ہے تو ایک زمانے کے طاقتور لوگ شکنجے میں بھی آ جاتے ہیں۔

ڈاکٹر حسن عسکری، سہیل وڑائچ کی بات سے قدرے اتفاق کرتے ہوئے سمجھتے ہیں کہ پاکستانی فوج کی موجودہ قیادت ایسے لوگوں پر ہاتھ ڈالنا چاہتی ہے اور ڈال رہی ہے جس سے وہ سمجھتے ہیں کہ اُن کے نظم و نسق اور مفادات کو خطرہ پیدا ہوا ہے یا پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔اُن کا کہنا تھا کہ اگر سابق ڈی جی آئی ایس آئی کو سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے سبب پکڑا ہے تو اس میں بھی مسائل ہیں کیوں کہ جب بھی کوئی افسر آئی ایس آئی کا چیف ہوتا ہے تو دیکھنا یہ ہے کہ یہ پالیسی ادارے کی پالیسی تھی یا کسی کی ذاتی خواہش تھی۔

تاہم یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ جنرل فیض حمید کی گرفتاری عمران خان کے لیے کوئی پیغام ہے؟تجزیہ کار سہیل وڑائچ کی رائے میں جنرل فیض حمید کی گرفتاری کے سبب عمران خان کی مشکلات کم ہوتی نظر نہیں آ رہیں۔ کیوں کہ فیض حمید کی گرفتاری سے قبل ہونے والی تحقیقات یا اب ہونے والی تحقیقات میں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ عمران خان کا نام آتا ہے یا نہیں۔اُن کا کہنا تھا کہ آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز میں ایک جملہ ٹاپ سٹی رہائشی کالونی سے متعلق جب کہ دوسرا جملہ اُن کی فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد سیاسی معاملات میں دخل اندازی سے متعلق ہے۔اُن کے بقول یوں لگتا ہے کہ شاید فیض حمید تحریکِ انصاف کو کوئی ہدایات دے رہے تھے یا کسی سرگرمی کا حصہ رہے تھے یا موجودہ فوجی قیادت کے خلاف کچھ کر رہے تھے۔

واضح رہے کہ سینئر صحافی حامد میر نے اپنے ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا ہے کہ فیض حمید نو مئی کے واقعات کی منصوبہ بندی میں بھی شامل تھے اور اس حوالے سے اداروں کے پاس شواہد موجود ہیں۔

تاہم سینئر صحافی مظہر عباس کہتے ہیں کہ ابھی تک سرکاری سطح پر کوئی چیز سامنے نہیں آئی کہ عمران خان اور فیض حمید کے تعلقات کے الزامات پر کورٹ مارشل ہو گا یا نہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو وہ آسان نہیں ہو گا جس کی وجہ یہ ہے کہ سابق آرمی چیف کے کردار اور عمران خان کا بحیثیت وزیراعظم کیا رول تھا سب سامنے آئے گا جو کہ ایک بہت بڑا مقدمہ بن جائے گا۔مظہر عباس کہتے ہیں کہ ٹاپ سٹی ہاؤسنگ اسکیم کے علاوہ جو ابھی تک بات سامنے آئی ہے اُس سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست میں مداخلت کا کوئی سیاسی پہلو بھی نکل سکتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو سوال اُٹھے گا کہ ٹرائل صرف جنرل فیض حمید کا ہونا چاہیے یا جنرل باجوہ کا بھی ہونا چاہیے۔اُن کا کہنا تھا کہ بظاہر یوں لگ رہا ہے کہ بات زیادہ آگے نہیں جائے گی کیوں کہ ایسی صورت میں بہت سے نام سامنے آئیں گے جو کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا بہت بڑا مقدمہ ہو گا۔مظہر عباس کہتے ہیں کہ عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد آنے سے پہلے اور اس کے بعد کے عرصے کے ڈھائی، تین برس میں جنرل فیض اور جنرل باجوہ کا بہت اہم کردار تھا۔اُن کا کہنا تھا کہ عمران خان نے بھی اداروں کا سہارا ڈھونڈا، موجودہ حکومت بھی سہاروں پر انحصار کرتی ہے۔ اگر اداروں پر انحصار کریں گے تو جب اداروں کی پالیسی بدل جاتی ہے تو سیاست دانوں کی مشکلات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

تاہم ڈاکٹر حسن عسکری کی رائے میں فیض حمید کی گرفتاری عمران خان سمیت تمام سیاست دانوں کے لیے ایک پیغام ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا سیکھیں۔ اداروں کا سہارا نہ ڈھونڈیں۔

یاد رہے کہ پاکستان فوج کے سابق سربراہ قمر جاوید باجوہ نے اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل فوج کے سیاست میں ملوث ہونے کی تصدیق کی تھی تاہم اُن کا کہنا تھا کہ فوج آئندہ ملک کے سیاسی معاملات سے دور رہے گی۔تجزیہ کاروں کے مطابق ریٹائرڈ جنرل فیض حمید کی بطور پاکستان کی خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ ایک بلاشبہ بڑی گرفتاری ہے۔ تاہم اِس گرفتاری کے آنے والے دِنوں میں پاکستان کی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہوں گے، اِس بارے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا۔

Back to top button