سیاسی جماعتوں نے اپنا اپنا جج کیوں چن لیا؟

سینئر صحافی اور تجزیہ کار حماد غزنوی نے کہا ہے کہ کیا عمران خان لوور ( Lover) ہونے کا یہ مطلب ہے کہ عثمان بزدار کی وزارتِ اعلیٰ کو پنجاب کا زریں ترین دور قرار دے دیا جائے، پرویز الہٰی کو آئین کا سب سے بڑا نگہبان مان لیا جائے، اور ہوا بازی کے سابق وزیر غلام سرور خان کو ملک کا خیر خواہِ عظیم تسلیم کر لیں؟ اگر ایسا کریں گے تو آپ اپنی عقل کی توہین کے مرتکب ہوں گے. سیاست اور  معاشرت میں کسی کتّے کے پائوں چاٹنا جہالت ہے، خواہ وہ سگِ لیلیٰ ہو یا ’شیرو‘۔ اپنے ایک کالم میں حماد غزنوی بتاتے  ہیں کہ مولانا روم ؒ سے حکایت ہے کہ ایک بار مجنوں نے کہیں ایک کُتّا دیکھا تو پہچان لیا کہ یہ تو اس کی محبوبہ لیلیٰ کی گلی کا کُتّا ہے، سو آگے بڑھ کر کُتّے کی قدم بوسی کا شرف حاصل کیا، دیکھنے والوں نے مجنوں سے کہا ایسے مُردار خور اور ناپاک جانور کو چومتا چاٹتا ہے، دیوانہ ہو گیا ہے کیا؟ اس پر مجنوں نے کہا تمہیں کیا معلوم یہ کُتّا کون ہے اور میری نظر میں اس کا کیا مقام ہے، میں تو اس سے حسد کرتا ہوں کہ یہ لیلیٰ کی گلی میں رہتا ہے۔

حماد غزنوی لکھتے ہیں کہ  یہ جہانِ عشق کا مسلم اصول ہے کہ جس شےکو محبوب کی نسبت حاصل ہو جائے محترم و معتبر ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر یہی اصول جہانِ سیاست پر لاگو کر دیا جائے تو معاشرے سے  بلندی و پستی اور عزت و بے توقیری کے مروجہ معیار اتھل پتھل ہو کر رہ جائیں گے۔ جن لوگوں نے اپنی ساری زندگی ہمارے سامنے با وقار اور با کردار رہ کر گزاری ہے، ہم ان کی زندگی بھر کی تپّسیا یہ کہہ کر بھرشٹ کر دیں کہ کیوں کہ آپ کا تعلق فلاں سیاسی جماعت سے ہے، اس لئے آپ حقارت کے پست ترین درجے پر فائز ہو چکے ہیں۔صد افسوس کہ بطورِ معاشرہ ہم نے کچھ ایسی ہی حرکت کی ہے۔ ہماری عقل کا عالم دیکھئے کہ پہلے ہم نے سیاست کو اندھی محبت اور اندھی نفرت میں بانٹا اورپھرعشق کا یہ اصول مِن و عَن سیاست پر لاگو کر دیا ۔اب عالم یہ ہے کہ مخالفین کی نظر میں نواز شریف کے سب حامی کرپٹ پٹواری ہیں اور عمران خان کے متوالے اخلاق باختہ یوتھیے۔اب جس جس نے آپ کے سیاسی مرشد کے ہاتھ پر بیعت کر رکھی ہے وہی باکردار ہے، وہی جید عالم ہے، وہی معتبر صحافی ہے، وہی محب وطن ہے، وہی جری جرنیل ہے اور وہی عالی شان جج ہے۔

حماد غزنوی سوال کرتے ہیں کہ  آپ کے مرغوب سیاسی راہ نما کے کھونٹے سے بندھنے کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ آپ لوگوں کی بداعمالیوں سے صرفِ نظر کر لیں۔اور اسی طرح اگر کسی صاحب نے آپ کے سامنے بااصول اور باوقار زندگی گزاری ہے تو وہ شخص با اصول اور با وقار ہی سمجھا جائے گا، خواہ وہ کسی بھی سیاسی نظریے سے تعلق رکھتا ہو۔مثلاً حامد خان یا جسٹس وجیہ الدین احمد کا صرف احترام ہی کیا جا سکتا ہے خواہ وہ پی ٹی آئی میں ہوں یا کسی اور جماعت میں ۔یہی معاملہ میاں افتخار حسین، افراسیاب خٹک، پرویز رشید، رضا ربانی کا بھی ہے۔ اور بھی ایسے کئی دوست ہیں جن کے دامن پر نہ تو مال کی ناروا محبت کے چھینٹے ہیں، نہ جمہوریت شکنی کے دھبے۔یہ وہ برہمن ہیں جو کعبے میں گاڑے جائیں گے، اصولوں پر کھڑے ہوئے لوگ، آئین پر ڈٹے ہوئے لوگ۔ صحافیوں کے ساتھ بھی ہمارا رویہ کچھ ایسا ہی ہے۔ جن صحافیوں نے ہمارے سامنے بیس تیس سال ہر طرح کی تحریص و ترغیب سے بچ کر اپنے فرائض دیانت داری سے ادا کئےان اصحاب کو ہم نے صرف اس لئے ’لفافہ‘ قرار دے دیا کیوں کہ وہ ہمارے محبوب قائد کے قصیدہ گو نہیں تھے۔

حماد غزنوی کہتے ہیں کہ عدالتوں کی طرف دیکھیں تو  سیاسی جماعتوں نے اپنا اپنا جج چن لیا ہے، اور پارٹی کے پیروکاروں نے اسی حساب سے ججوں کی ’عزت افزائی‘ کا اہتمام کر رکھا ہے۔یہ اندھی محبت اور نفرت کی بہترین مثال ہے۔ دوستو، ایک لمحے کو توقف کر کے یہ تو سوچ لیجئے کہ یہ جج کل تو نہیں پیدا ہوئے، انہوں نے تو آپ کے سامنے زندگی گزاری ہے، آپ ان کے کردار کی رفعتوں اور پستیوں سے آگاہ ہیں، یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک آدمی کی عمر بھر کی ریاضت آپ فقط اس لئے مسترد کر دیں کہ اُس کے فیصلے آپ کو سیاسی طور پر فائدہ نہیں پہنچا رہے۔ مثلاً پندرہ قاضیوں میں سے ایک قاضی ایسا ہے جس کے اثاثے سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر جگ مگا رہے ہیں، جس نے ریاست سے کبھی کوئی پلاٹ نہیں لیا، جس نے تحفے میں ملنے والا گُل دان بھی توشہ خانے میں جمع کروا دیا، جس کو حال ہی میں سپریم کورٹ نے دعوت دی کہ آپ کی سات سال پرانی گاڑی تبدیل کر دیتے ہیں اوراُس نے جواب دیا ’نو تھینک یو ۔

ہمارے اندر تو یہ جرات نہیں کہ ہم ایسے شخص کی مخالف سمت میں کھڑے ہو جائیں۔  آخر میں حماد غزنوی کا کہنا ہے کہ باکردار لوگوں کا حق ہے کہ سارا معاشرہ بلا سیاسی تفریق ان کا احترام کرے۔اگر ہم اہلِ حق کا ساتھ چھوڑ کر اہلِ ٹرک کا ساتھ اس لئے دیں کہ ان کے کسی فیصلے سے ہمارے محبوب قائد کو کچھ وقتی فائدہ حاصل ہو رہا ہے تو یہ خوف ناک رویہ ہے۔ اپنے باکردار لوگوں سے ایسا سلوک کرنے والے معاشرے بنجر ہو جاتے ہیں، پھر وہاں اعلیٰ آ دمی پیدا نہیں ہوتے، یہ قدرت کا اصول ہے۔ با کردار آدمی کی عزت کریں چاہے وہ مخالف صف میں کھڑا ہو۔ عشق کے اصول جہانِ عشق تک محدود رکھئے۔یاد رکھئے جہانِ سیاست و معاشرت میں کسی کتّے کے پائوں چاٹنا جہالت ہے، خواہ وہ سگِ لیلیٰ ہو یا ’شیرو‘۔

حکومت اور عمران خان میں اب مذاکرات ناممکن کیوں؟

Back to top button