جنرل باجوہ نے نواز شریف اور عمران خان کو بھی کیسے دھوکہ دیا؟
سینئر صحافی زاہد حسین کا کہنا ہے کہ دو مدت کے لیے آرمی چیف رہنے والے جنرل باجوہ کی ریٹائرمنٹ کو تقریباً دو سال ہوچکے ہیں لیکن ان کے دور سے متعلق تنازعات ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ ان کے حامی اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ، ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی حالیہ گرفتاری اور فیلڈ کورٹ مارشل کی کارروائی نے جنرل باجوہ کو ایک بار پھر شہ سرخی بنادیا ہے۔ جنرل باجوہ کی مبینہ سیاسی چالوں کے بارے میں نئے انکشافات سامنے آئے ہیں جن میں دو وزرائے اعظم کے برطرفی اور حکومتیں تبدیل ہوئیں۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے جنرل باجوہ اور فیض حمید پر 2017ء میں انہیں وزیراعظم کے عہدے سے ہٹانے اور انہیں مجرمانہ مقدمات میں سزا سنانے کا الزام لگایا جبکہ دوسری جانب ان کے حریف عمران خان اپنی حکومت کے خاتمے کا ذمہ دار بھی جنرل باجوہ کو ہی ٹھہراتے ہیں یعنی نون لیگ اور پی ٹی آئی دونوں متحارب دھڑے جنرل باجوہ پر ہی دھوکہ دہی کا الزام لگاتے ہیں۔
زاہد حسین کے مطابق دلچسپ بات یہ ہے کہ کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان کو 2018ء کے انتخابات میں سیاسی انجینئرنگ کرکے اقتدار میں لانے کا سہرا بھی جنرل قمر جاوہد باجوہ کے سر دیا جاتا ہے۔ انہیں ہائبرڈ نظام کے موجد کے طور بھی دیکھا جاتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جب عمران خان اور جنرل باجوہ کی شراکت داری ٹوٹی تو ہی اسی نظام نے مسلم لیگ (ن) کے لیے ایک بار پھر اقتدار میں واپسی کے راستے کھولے ہیں۔چونکہ اسٹیبلشمنٹ نے ان کی سرپرستی سے ہاتھ اٹھا لیے تھے اس لیے زخمی عمران خان نے شور مچایا کہ انہیں دھوکا دیا گیا۔ تاہم خواجہ آصف کے مطابق یہ محض فوجی قیادت کی جانب سے غیرجانبداری کا اعلان ہی نہیں تھا جس کی وجہ سے ساڑھے تین سال پر مشتمل ہائبرڈ حکومت ٹوٹی بلکہ درحقیقت اس وقت اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان روابط تیز تھے جن کی وجہ سے بازی پلٹ گئی۔
زاہد حسین کے بقول سب سے دلچسپ کہانی تو یہ ہے کہ سینیارٹی لسٹ میں جنرل قمر جاوید باجوہ نیچے تھے لیکن اس کے باوجود اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے جنرل باجوہ کے سسر میجر جنرل اعجاز امجد کی یقین دہانی پر انھیں آرمی چیف بنایا گیا۔یہ تو واضح تھا کہ آرمی چیف کی تعیناتی کے لیے میرٹ یا سینیئر ہونا معنی نہیں رکھتا۔ لہٰذا نواز شریف جو پہلے ہی پاناما کیس کی زد میں آچکے تھے، اس وقت کی ملٹری قیادت سے بھی ان کے تعلقات خوشگوار نہیں تھے۔ اس انتہائی اہم عہدے کے لیے انہیں قابلِ اعتماد شخص کی ضرورت تھی۔ ایسے میں جنرل باجوہ بلاشبہ سیاسی انتخاب تھے۔ لیکن جیسا کہ ایک ریٹائرڈ جنرل نے کہا، ایک بار اس طاقتور عہدے کا چارج سنبھال لینے کے بعد کوئی بھی آرمی چیف اپنے ادارے کے علاوہ کسی کا بھی وفادار نہیں رہتا۔ اور یہی ہوا۔چند ماہ بعد نواز شریف کو سپریم کورٹ کے ذریعے برطرف کردیا گیا۔ اس حوالے سے یہی مانا جاتا ہے کہ تین بار وزیراعظم بننے والے نواز شریف کے خلاف آنے والے فیصلے کو سیکیورٹی اسٹیلشمنٹ کی سرپرستی حاصل تھی کیونکہ ایک پریس بریفنگ میں صحافی نے جنرل باجوہ سے پوچھا کہ اگر وزیراعظم کو برطرف کردیا تو ان کے خیال میں کیا ہوگا۔ انہوں نے دھیمے انداز میں جواب دیا، ’کچھ نہیں ہوگا۔ جب ہم نے بھٹو کو پھانسی دی تب بھی کچھ نہیں ہوا تھا‘۔ اس بیان سے طاقت کا غرور واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔پھر 2018ء کے انتخابات آئے۔ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ تو یہ ٹھان چکی تھی کہ نواز شریف کو دوبارہ اقتدار میں آنے نہیں دیا جائے گا۔
زاہد حسین کھ مطابق جنرل قمر جاوید باجوہ نے بعدازاں ان سے کہا کہ عمران خان کی حمایت کرنا تو ادارہ جاتی فیصلہ تھا۔ 2018ء کے انتخابات اور پی ٹی آئی کی حکومت کے قیام کے بعد ایک نیا ہائبرڈ نظام وجود میں آیا جسے سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی مکمل سرپرستی حاصل تھی۔ لیکن اس نظام میں کچھ موروثی تضادات تھے جو ابھرنا شروع ہوئے۔ نئے وزیر اعظم نے اپنا مؤقف ثابت کرنے کی کوشش کی اور کچھ ایسے فیصلے کیے جو اسٹیبلشمنٹ کے خیالات سے متصادم تھے۔ آئی ایس آئی کی کمان میں تبدیلی نے یقینی طور پر دونوں فریقین کے تعلقات کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا کیونکہ بانی پی ٹی آئی جنرل فیض کو تبدیل کرنے پر آمادہ نہیں تھے جبکہ عمران خان کی جانب سے جنرل فیض پر اندھے اعتماد سے عسکری قیادت نالاں تھی۔ چنانچہ عثمان بزدار کی بطور وزیر اعلیٰ پنجاب تقرری اور عمران خان کا جنرل فیض پر اندھا اعتماد عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ میں خلیج بڑھانے کا سب سے اہم نکتہ ثابت ہوا۔ جنرل باجوہ، عمران خان کے خارجہ پالیسی کے متعلق معاملات میں کمزور کوششوں سے بھی ناخوش تھے۔ جبکہ وہ پاکستان کے مفادات کے لیے عمران خان کے برطانیہ سمیت دیگر اہم ممالک کا دورہ کرنے میں ہچکچاہٹ سے بھی نالاں تھے۔ جو بالآخر دونوں فریقین میں تعلقات کی خرابی کا موجب بنا۔
زاہد حسین کے مطابق تب ایسا لگ رہا تھا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے ساتھ روابط بحال کردیے ہیں اور اب خواجہ آصف کے بیانات سے اس گمان کی تصدیق ہورہی ہے۔ جنرل باجوہ نے شہباز شریف کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کے بارے میں بتایا تھا کہ وہ ان کے لیے پسندیدگی محسوس کرنے لگے ہیں۔ تاہم بیک وقت وہ اپوزیشن کے ساتھ ملاقاتوں کا ذکر کرنے کو تضحیک آمیز سمجھتے رہے۔جنرل باجوہ نے بتایا کہ جب انہوں نے شہباز شریف سے اپنے اور ان کے خاندان کے افراد کے خلاف منی لانڈرنگ کیس کے بارے میں پوچھا تو شہباز شریف نے جواب دیا کہ ان کے بچوں سے ’غلطی‘ ہوئی ہے۔ جنرل باجوہ نے مولانا فضل الرحمٰن سے اپنی ملاقات کا احوال بھی بتایا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کے مطابق جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ نے ان سے صرف ایک ہی درخواست کی کہ وہ عمران خان کی حکومت کو برطرف کردیں۔زاہد حسین کے مطابق جنرل باجوہ کے عظیم عزائم پر کوئی شک نہیں لیکن ان میں سے بہت سے عزائم پورے نہیں ہوپائے۔ وہ چلے گئے لیکن سیاسی اقتدار کے کھیل میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کا سلسلہ بدستور برقرار ہے۔ صرف فرق اتنا ہے کہ اب کمان کسی اور کے ہاتھ میں ہے۔