جنرل فیض نے عمران کو زرداری اور نوازکیخلاف کیسے بھڑکایا؟

ملک میں سیاسی عدم استحکام کے خاتمے کے لیے شروع ہونے والے سہ فریقی مذاکرات کے آغاز پر عمران خان نے آصف علی زرداری اور نواز شریف پر ماضی کو دفن کر کے آگے بڑھنے ہر زور دیتے یوئے کہا ہے کہ میں اقرار کرتا ہوں کہ مجھ سے کافی غلطیاں ہوئی ہیں، مجھے فیض حمید اور اس کے بزرگوں نے ہی اپنی سیاسی برادری کے خلاف بہکا دیا تھا، میں نے انہی کے ایما پر چارٹر آف ڈیموکریسی کو ’’مُک مُکا‘‘ کا نام دیا، عمران کا کہنا تھا کہ ایسا کر کے میں نے بہت برا کیا، بلاشبہ چارٹر آف ڈیموکریسی 1973 کے آئین کے بعد ملک کی سب سے اہم دستاویز تھی، پاکستان کو جمہوریت کی پٹری پر چڑھانے کیلئے اور سویلین بالا دستی قائم کرنے کیلئے سیاسی جماعتوں کے درمیان میثاقِ جمہوریت اولین شرط ہے۔

عمران خان نے نواز شریف اور آصف زرداری کے ساتھ ہونے والی ملاقات کے دوران بڑے وفور کے عالم میں چارٹر آف ڈیموکریسی کے فیوض و برکات گنوائے۔ اس دوران میاں صاحب اور زرداری صاحب دونوں ہی مسکراتے رہے۔ عمران خان نے ایک نئے میثاقِ جمہوریت پر زور دیا جس کے تحت کوئی سیاسی جماعت کسی غیر سیاسی قوت کی آلہ کار بن کر منتخب حکومتوں کا خاتمہ کرنے میں کردار ادا نہیں کرے گی، کوئی حکومت اپنے سیاسی مخالفین کو جیلوں میں نہیں ڈالے گی، سیاست کو سیاست ہی رہنے دیا جائیگا اور اسے کرودھ کا کاروبار نہیں بنایا جائیگا۔ اس مرحلے پر زرداری صاحب خود پر قابو نہیں رکھ سکے اور انہوں نے عمران خان کی طرف ایک فضائی بوسہ اچھال دیا۔ میاں صاحب بھی خاموش نہ رہ پائے اور بول اٹھے ’’دیر آید، درست آید۔‘‘

لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ منظر نامہ حقیقی نہیں بلکہ خیالی ہے جسے معروف لکھاری اور تجزیہ کار حماد غزنوی نے اپنی تازہ تحریر میں کھینچا ہے۔ یہ منظر لکھاری نے چشمِ تصور سے دیکھا ہے، جس کی بنیادی وجہ سابق وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ خان کی ایک حالیہ تجویز ہے۔ اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں حماد غزنوی کہتے ہیں کہ نون لیگی رہنما رانا ثنا اللہ کی تجویز کے مطابق اگر آصف زرداری، نواز شریف اور عمران خان ایک میز پر بیٹھ کر مذاکرات کریں تو ملکی مسائل 70 دنوں میں حل ہو سکتے ہیں۔ لیکن سچ یہ ہے کہ خواہشوں کے پیڑ ہرے بھرے رکھنے کیلئے ان کی آب یاری لازم ہوا کرتی ہے۔

حماد غزنوی کے بقول ستّر دن تو کیا ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ہماری سیاست کے یہ تین کردار مل بیٹھے تو سیاسی استحکام کی بنیاد 70 کی بجائے 7 دنوں میں بھی ڈالی جا سکتی ہے۔ یہ کوئی مفروضہ نہیں ہے، یہ منظر ہم پہلے بھی دن کی روشنی میں اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں۔ جب 2006 میں بے نظیر بھٹو شہید اور نواز شریف نے لندن میں میثاقِ جمہوریت پر دستخط کئے تھے تو سیاسی نظام نے اس کے میٹھے ثمر سمیٹے تھے۔

حماد غزنوی یاد دلاتے ہیں کہ اس میثاق کے بعد 2008 سے 2013 کے درمیان کم از کم دو مرتبہ نواز شریف کو حکومت بنانے میں معاونت کی پیش کش کی گئی جو انہوں نے مسترد کی۔ آصف زرداری ان معاملات سے اچھی طرح آگاہ تھے۔ پھر 2014 میں عمران خان کے دھرنے اور نواز شریف کی حکومت کے خاتمے کی پیپلز پارٹی نے بہ بانگِ دُہل مخالفت کی تھی۔ یوں عمران خان کے اقتدار میں آنے کی سازش ناکام ہو گئی تھی۔ یاد رہے کہ ان دو حکومتوں کے دوران ملک میں ایک سیاسی قیدی بھی نہیں تھا۔ یہ سب میثاقِ جمہوریت کی برکتیں تھیں۔ جمہوریت کا یہ سفر کیسے کھوٹا ہوا، اپنے ایک ایک سیاسی مخالف کو چُن چُن کر کس طرح جیلوں میں ٹھونسا گیا، عدالتوں کو کیسے انصاف فروشی کے اڈوں میں تبدیل کیا گیا، پارلیمان میں ایک فوجی افسر بٹھا کر کس طرح قانون سازی کا مذاق بنایا گیا، کس طور میڈیا کا نرخرہ دبوچ کر جھوٹ بلوایا گیا، یہ ایک دل خراش داستان ہے۔

حماد غزنوی کہتے ہیں کہ سویلینز نے پائی پائی کر کے جو سیاسی اثاثہ بنایا تھا، اسے عمران خان کے دور حکومت میں یک مشت لٹا دیا گیا۔ اج سیاسی انتقام کا رونا رونے والے عمران خان نے بطور وزیراعظم اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف انتقام کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔ میاں نواز شریف اور آصف زرداری دونوں کو جیل میں ڈالا گیا۔ عمران خان جن کے کندھوں پر سوار ہو کر اقتدار میں آئے تھے بعد میں انہی کے گلے پڑ گے۔ پاکستانی تاریخ میں پہلی مرتبہ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومت سے نکلنے کے بعد عمران خان اور اس کے ساتھیوں نے 9 مئی 2023 کی واردات کر ڈالی۔ 26 نومبر 2024 کو دوبارہ ایسی ایک کوشش کی گئی جو بھرپور ریاستی ایکشن کے نتیجے میں ناکام بنا دی گئی۔

حماد غزنوی کہتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ نہیں ہوا کرتا، مذاکرات ہوا کرتے ہیں، دنیا بھر میں ایسا ہی ہوتا ہے، تاریخ میں بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے، بد ترین سیاسی دشمن بھی آپس میں گفتگو کرتے ہیں، کالونیوں میں ’’آقا‘‘ اور ’’غلام‘‘ بھی مذاکرات کرتے تھے، ریاستیں دہشت گردوں سے بھی مذاکرات کرتی رہی ہیں، بھٹو صاحب کو پی این اے سے مذاکرات کرنا پڑے تھے،حتیٰ کہ ڈکٹیٹر ایوب خان کو اپوزیشن سے مذاکرات کرنا پڑے تھے، مگر عمران خان اپنے سیاسی مخالفین سے بات چیت کیلئے کسی صورت، اور کسی حالت میں آمادہ نہیں ہوتے تھے۔ موصوف فوج کو اپنی حکومت گرانے کا ذمہ دار قرار دینے کے بعد سے مسلسل یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ وہ اگر مذاکرات کریں گے تو فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہی کریں گے اور حکومت کے ساتھ بالکل بھی نہیں بیٹھیں گے۔

بطور وزیر اعظم بھی عمران خان کی حالت یہ رہی کہ ملکی سلامتی پر جی ایچ کیو میں بریفنگ میں وہ اپوزیشن رہ نمائوں کیساتھ ایک چھت تلے بیٹھنے پر تیار نہیں ہوتے تھے۔ ان کی نمائندگی یا تو آرمی چیف اور یا پھر آئی ایس آئی چیف کیا کرتے تھے۔ نفرت کی سیاست کا انجام بہ ہر حال ناخوشگوار ہی ہوا کرتا ہے۔ اب حال ہی میں رانا ثنااللہ نے ہمیں جو خواب دکھایا ہے وہ بہت سہانا ہے۔ انہوں نے اصف علی زرداری، نواز شریف اور عمران خان کے آپسی مذاکرات کی تجویز دی ہے۔ یہ تین بڑے ایک میز کے گرد کب بیٹھ پائینگے، ہم نہیں جانتے۔ فی الحال تو ہم پارلیمان میں ہونے والے مذاکرات کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ کوہ ہمالیہ بھی سر ہو جائے گا، پہلے شملہ پہاڑی پر تو چڑھ جائیں۔

Back to top button