190 ملین پاؤنڈزکیس کا فیصلہ بار بار ملتوی کیوں ہو رہا ہے؟

ٹھوس شواہد کی وجہ سے 190ملین پاؤنڈ کیس کے فیصلے نے پی ٹی آئی قیادت کو خوف میں مبتلا کر رکھا ہے۔ یوتھیے رہنما بانی پی ٹی آئی عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بی بی کو اس کیس میں سزا سے بچانے کیلئے مختلف حیلے بہانے ڈھونڈتے دکھائی دیتے ہیں۔ایک ایسے وقت میں جب پاکستان تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔ ایسے میں دوسری بار 190 ملین پاؤنڈ کیس کے فیصلے کے موخر ہونے پر سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔ جہاں عمران خان فیصلے کی معطلی کو دباؤڈالنے کا حکومتی حربہ قرار دے رہے ہیں وہیں دوسری جانب حکومتی ذمہ داران کے مطابق 190ملین پاؤنڈ کیس خالصتاً عدالتی معاملہ ہے۔ اس لئے اس حوالے سے حکومت کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ عدالت جب چاہے گی وہ کیس کا فیصلہ سنا دے گی۔ فیصلہ سنانے یا نہ سنانے بارے حکومت کا عدالت پر کوئی دباو نہیں۔ تاہم  مبصرین کے مطابق ماضی قریب میں ہونے والے فیصلوں کے تناظر میں 190 ملین پاؤنڈ کیس کا فیصلہ بار بار موخر کئے جانے سے کئی سوالات جنم لے رہے ہیں۔

190 ملین پاؤنڈ کیس کا فیصلہ 13 جنوری تک موخر کئے جانے کے بعد سوال پیداہوتا ہے کہ کیا یہ تاخیر محض احتساب عدالت کے جج کے رخصت پر ہونے کے باعث ہو رہی ہے یا پھر مذاکرات کو کامیاب بنانے کے لیے مقتدر حلقوں کی جانب سے تحریک انصاف کے اوپر دباؤ برقرار رکھا جا رہا ہے کہ عمران خان اور ان کی اہلیہ کو ایک بار پھر سزا سنائی جا سکتی ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کے خیال میں مذاکرات کو کامیاب بنانے کے لیے کیس کا فیصلہ فوری طور پر نہیں کیا جا رہا کیونکہ عمران خان کو سزا ہونے کی صورت میں مذاکراتی عمل سبو تاژ ہو سکتا ہے۔

اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے سینیئر تجزیہ کار سید طلعت حسین کاکہنا ہے کہ اصولی طور پر فیصلوں کو فوری طور پر سامنے آنا چاہیے اور ان کے لیے جو تاریخ بھی مقرر کی جائے اس تاریخ پر فیصلہ ہو جانا چاہیے، فیصلے کو بار بار مؤخر کیے جانے سے مختلف قسم کی افواہ سازیوں کو تقویت ملتی ہے۔ طلعت حسین کے مطابق ان افواہوں کی بنیاد پر یہ بھی سمجھا جا رہا ہے کہ یہ فیصلہ پاکستان تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان مذاکرات کے ساتھ نتھی ہو چکا ہے اب اس میں کتنی حقیقت اور کتنا افسانہ ہے جج نے اپنے فیصلے میں عوام کو اعتماد میں لے کر فیصلے کی تاریخ تبدیل کرنے کی وجوہات سے آگاہ نہیں کرنا۔ ایسی صورت میں افواہوں اور تجزیات کی اڑان کو آپ کسی صورت بھی روک نہیں سکتے۔‘

طلعت حسین نے مزید کہا کہ افواہ سازی کی فیکٹری سے جو بات نکلی ہے اس کے مطابق اگر تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان معاملات طے پا جاتے ہیں اور اونٹ کسی کروٹ بیٹھتا ہے تو یہ فیصلہ تبدیل بھی ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ مسلم لیگ ن کے رہنما اس بات سے اتفاق نہیں کرتے لیکن تحریک انصاف کے اپنے رہنماؤں کے مطابق 190 ملین پاؤنڈ کا موجودہ فیصلہ عمران خان کے خلاف جا رہا ہے اور اس حوالے سے انہوں نے احتجاج کی منصوبہ بندی بھی کر رکھی تھی تاہم اب یہ فیصلہ 13 جنوری تک موخر کر دیا گیا ہے۔طلعت حسین کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ فیصلہ اگرچہ پہلے بھی متنازعہ ہی تھا لیکن فیصلے کو بار بار مؤخر کر کے دودھ کی دہی اور دہی کی لسی کر دی گئی ہے۔ اس لیے اب عوام اس فیصلے کو تسلیم نہیں کریں گے اور کوئی بھی یہ نہیں مانے گا کہ یہ فیصلہ میرٹ پر ہوا ہے۔‘

خیال ریے کہ 190 ملین پاؤنڈ کیس کی سماعت اڈیالہ جیل میں احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا نے کی تھی۔ اسلام آباد کی احتساب عدالت نے کیس کا فیصلہ 18 دسمبر 2024 کو محفوظ کیا تھا۔احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا نے کیس کا فیصلہ سنانے کے لیے پہلے 23 دسمبر کی تاریخ مقرر کی تھی۔ پھر چھ جنوری کی تاریخ دی اور اب 13 جنوری کو فیصلہ سنانے کا اعلان کیا ہے۔

واضح رہے کہ 190 ملین پاؤنڈز یا القادر ٹرسٹ کیس میں الزام لگایا گیا ہے کہ عمران خان اور ان کی اہلیہ نے پی ٹی آئی کے دور حکومت میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کی جانب سے حکومتِ پاکستان کو بھیجے گئے 50 ارب روپے کو قانونی حیثیت دینے کے عوض بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ سے اربوں روپے اور سینکڑوں کنال مالیت کی اراضی حاصل کی۔ یہ کیس القادر یونیورسٹی کے لیے زمین کے مبینہ طور پر غیر قانونی حصول اور تعمیر سے متعلق ہے جس میں ملک ریاض اور ان کی فیملی کے خلاف منی لانڈرنگ کے کیس میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کے ذریعے 140 ملین پاؤنڈ کی وصولی میں غیر قانونی فائدہ حاصل کیا گیا۔

عمران خان پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے اس حوالے سے طے پانے والے معاہدے سے متعلق حقائق چھپا کر کابینہ کو گمراہ کیا۔ 190 ملین پاؤنڈز پاکستان کو تصفیہ کے معاہدے کے تحت موصول ہوئے تھے جنہیں قومی خزانے میں جمع کیا جانا تھا لیکن اسے بحریہ ٹاؤن کراچی کے 450 ارب روپے کے واجبات کی وصولی کے کھاتے میں ایڈجسٹ کر دیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ’القادر ٹرسٹ’ کی بنیاد سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے دورِ حکومت میں 2019 میں رکھی گئی تھی جس کے ٹرسٹی عمران خان، ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور ان کی قریبی دوست فرح گوگی ہیں۔القادر ٹرسٹ اُس وقت قائم کیا گیا تھا جب اُس وقت کے وزیرِ اعظم عمران خان نے اپنی کابینہ سے ایک لفافے میں بند کاغذ پر درج سمری کی منظوری لی تھی۔ جس کے تحت برطانیہ سے پاکستان کو موصول ہونے والے 190 ملین پاؤنڈ کی رقم کو سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں منتقل کردیا گیا تھا۔ بعد ازاں نیب نے تحقیقات مکمل ہونے کے بعد احتساب عدالت میں عمران خان کیخلاف ریفرنس دائر کیا تھا اس کیس کی لگ بھگ 100 سماعتیں ہوئیں جبکہ اسی کیس میں 30 سے زائد گواہان کو پیش کیا گیا جن میں سابق وزیرِ دفاع پرویز خٹک، سابق وفاقی وزیر زبیدہ جلال اور عمران خان کی وزارتِ عظمیٰ میں پرنسپل سیکریٹری رہنے والے اعظم خان بھی شامل تھے۔

Back to top button