جسٹس فائز عیسی پچھلے منصفوں سے کس طرح مختلف نکلے؟
معروف لکھاری اور تجزیہ کار حماد غزوی نے کہا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسی نے اپنے ایک سالہ دور میں درجن سے زائد ایسے تاریخی عدالتی فیصلے دیے جو انہیں ملک کے ممتاز ترین منصفوں کی صف میں کھڑا کر دیتے ہیں، یہ فیصلے کوئی دیوانی یا فوجداری نوعیت کے کیسز کے نہیں بلکہ وہ فیصلے ہیں جو ماضی میں دینے سے ہر ’’سمجھ دار‘‘ چیف جسٹس جج کتراتا رہا۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں حماد غزنوی کہتے ہیں کہ اگلے روز میرے ایک دوست جسٹس فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ پر تبصرہ فرماتے ہوئے کہنے لگے کہ’’ہمیں تو اتنا پتا ہے کہ انہوں نے ہمارے کپتان سے بلّے کا نشان چھینا تھا جو ان کے متعصب جج ہونے کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے‘‘ اور پھر انہوں نے وہ تاریخی جملہ عطا کیا کہ ہر وہ شخص جو تاریخ کی درست سمت میں کھڑا ہے، عمران خان کے حق میں ہے اور قاضی کے خلاف ہے۔ ظاہر ہے یہ گفتگو زیادہ دیر نہیں چل پائی۔ انکا کہنا یے کہ ہماری نظر میں سیاست دان ہوں یا جج، علماء ہوں یا اساتذہ، سب انسان ہوتے ہیں، وہ اپنی تمام تر خوبیوں اور بشری خامیوں سمیت، اور اسی منصب پر بھلے معلوم ہوتے ہیں۔ قاضی صاحب کو بھی ہم اسی اصول کی روشنی میں پرکھتے ہیں۔ قاضی صاحب نے بلّے کے نشان والا جو فیصلہ دیا وہ بہ ظاہر قانون کے عین مطابق دیا، کیس کی کارروائی نشر کی گئی، آج بھی اس کی ریکارڈنگ میسر ہے اور دیکھی جا سکتی ہے، اور دوسری طرف یہ بھی سچ ہے کہ قاضی صاحب کا وہ فیصلہ ہمارے پسندیدہ فیصلوں میں شامل نہیں ہے۔
حماد غزنوی کہتے ہیں کہ قاضی صاحب کا ایک آدھ فیصلہ نہیں، درجن بھر فیصلے ایسے ہیں جو ہماری نظر میں انہیں پاکستان کی تاریخ کے ممتاز ترین منصفوں کی صف میں کھڑا کر دیتے ہیں، اور یہ فیصلے کوئی دیوانی یا فوجداری نوعیت کے مقدمات کے فیصلے نہیں ہیں، یہ وہ فیصلے ہیں جن سے ہر ’’سمجھ دار‘‘ جج کتراتا رہا ہے، جن فیصلوں سے ’’پر جلتے ہیں‘‘، یہ فیصلے اس ریاست کے حساس ترین مسائل سے تعلق رکھتے ہیں۔
واقفانِ حال جانتے ہیں کہ جس دن نواز شریف نے پرویز مشرف کے خلاف کیس چلانے کی اجازت دی تھی، اسی دن ان کی حکومت کے خاتمے کا منصوبہ آغاز کر دیا گیا تھا۔ جسٹس وقار سیٹھ نے مشرف کو غدار قرار دیا تو ریاست اس وقت تک بے چین رہی جب تک اس فیصلے کو ختم نہ کروا دیا گیا۔ سال ہا سال سپریم کورٹ نے اس فیصلے کی اپیل ہی نہ سنی۔
حماد غزنوی یاد دلواتے ہیں کہ قاضی صاحب نے یہ اپیل نہ صرف سنی بلکہ جسٹس وقار سیٹھ کا فیصلہ بھی بحال کر دیا۔ اس فیصلے کی اہمیت اہلِ نظر خوب جانتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کو غلط قرار دینا ہر لحاظ سے ایک تاریخ ساز فیصلہ ہے، یہ عدالتِ عظمیٰ کی جانب سے اپنے گناہ کا اولین اعتراف ہے، قاضی صاحب نے ایک راستہ دکھایا ہے جو بہت دور تک جا سکتا ہے۔ فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ پاکستان کو لاحق جان لیوا مرض کی درست تشخیص ہے، سود و زیاں سے بے نیاز شخص ہی ایسا فیصلہ کر سکتا تھا۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی تو اپیل ہی برسوں پڑی رہی، کسی کو جرات ہی نہ ہوئی کہ اس بھڑوں کے چھتے کو ہاتھ لگائے۔ قاضی صاحب نے جسٹس شوکت صدیقی کی تکریم بحال کی۔
حماد کہتے ہیں کہ ہمارے نزدیک تو ان کا پارلے مان کی برتری کو تسلیم کرنا ہی ہر عمل پر بھاری ہے۔ کیا کیا گنوایا جائے، ڈیم فنڈ کے 32 ارب حکومت کے اکائونٹ میں جمع کروائے، منی لانڈرنگ کے 190ملین پائونڈ عوام کے خزانے میں جمع کروائے، 63 اے میں آئین بحال کیا، جہاں سال ہا سال فل کورٹ کا اجلاس نہیں ہوتا تھا، وہاں یہ ’’کارنامہ‘‘ بھی کر کے دکھایا۔ طوالت کے خوف سے بہت سے زریں فیصلے قلم انداز کرنا ہوں گے۔ باقی جمع تفریق آپ خود کر لیں۔
اگر آپ کی نظر میں ثاقب نثار، آصف سعید کھوسہ، عطا بندیال تاریخ کی درست سمت میں کھڑے ہیں تو آپ سے بحث نہیں ہو سکتی…آپ کے لیے دعا ہو سکتی ہے…یا اللہ یا شافی۔