جسٹس فائزنے4عمراندارججزکاچیف جسٹس بننے کا راستہ کیسے روکا؟
جسٹس قاضی فائز عیسی ایک برس پر محیط مختصر لیکن مشکل ترین دور میں چیف جسٹس آف پاکستان رہنے کے بعد ریٹائر تو ہو گئے لیکن تاریخ جب بھی ان کے کردار کو زیر بحث لائے گی تو انکا نام ایک اصول ہسند جج کے طور پر عزت اور احترام کیساتھ کیا جائے گا۔ جب نام نہاد عمرانی انقلاب کا طوفان تھم جائے گا، اور کپتان کے عطا کردہ سیاسی شعور کی گرد بیٹھ جائے گی، اور قاضی فائز عیسی کے ہم عصر ججز سے ان کا موازنہ کیا جائے گا تو ان کے مخالفین کو بھی اندازہ ہو جائے گا کہ فائز عیسیٰ کتنے درویش صفت چیف جسٹس تھے۔
معروف لکھاری اور تجزیہ کار بلال غوری نے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ 25 اکتوبر 2024 کو جن 5 ججز نے قاضی فائز عیسی کی الوداعی تقریب میں شرکت کی زحمت گوارہ نہیں کی، ان میں سے چار عمراندار جج صاحبان چیف جسٹس بننے کے خواب سجائے بیٹھے تھے جو فائز عیسیٰ کے ہاتھوں تار تار ہو گے۔ ان ججز میں عمراندار کہلانے والے جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس اطہر من اللہ بھی شامل ہیں۔ بلال غوری بتاتے ہیں کہ ایک عرصہ سے یہ روایت چلی آرہی ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کرکٹ کے کپتان کی طرح باقاعدہ فیلڈنگ لگاتے ہیں۔ جب اپنے چیمبر کے کسی بااعتماد شخص کو سپریم کورٹ میں بطور جج لانا مقصود ہوتا ہے تو پورا حساب کتاب لگایا جاتا ہے کہ کب کون ریٹائر ہوگا اور کون سنیارٹی کی بنیاد پر چیف جسٹس کے منصب پر متمکن ہوگا۔
گویا سپریم کورٹ میں اپنی پسند کے ججز نہیں بلکہ چیف جسٹس لاکر بٹھائے جاتے رہے ۔اس ضمن میں ایک مثال دیتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ جسٹس ثاقب نثار سابق وزیر قانون خالد انور ایڈوکیٹ کے ساتھ کام کرتے رہے ۔جب وہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تھے تو 2018 میں دو جج صاحبان ریٹائر ہوئے۔اس وقت جسٹس یحییٰ آفریدی چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ کے سینئر موسٹ جج تھے اور الجہاد ٹرسٹ کیس کی روشنی میں انہیں سپریم کورٹ لانا چاہئے تھا لیکن جسٹس ثاقب نثار نے 8 مئی 2018 کو جسٹس منیب اختر کو آئوٹ آف ٹرن ترقی دیکر سپریم کورٹ کا جج بنا دیا حالانکہ وہ سندھ ہائیکورٹ میں سنیارٹی کے اعتبار سے چوتھے نمبر پر تھے ۔چند ہفتوں بعد یعنی 28جون 2018 کو چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ جسٹس یحییٰ آفریدی کو بھی سپریم کورٹ کا جج تعینات کر دیا گیا ۔
لیکن اصل سوال یہ یے کہ اس ایک ماہ کی تاخیر کے پس پردہ محرکات کیا تھے۔ معاملہ یہ تھا کہ چونکہ جسٹس یحییٰ آفریدی 23 جنوری 1965ء کو پیدا ہوئے تھے اس کیے اگر انہیں پہلے سپریم کورٹ میں تعینات کر دیا جاتا تو جسٹس منصور علی شاہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد وہ چیف جسٹس بنتے اور پھر عمر کی بالائی حد پوری ہونے تک یعنی 2030ء تک اس منصب پر متمکن رہتے۔ دوسری جانب خالد انور ایڈوکیٹ کے داماد جسٹس منیب اختر کی تاریخ پیدائش 14 دسمبر 1963ء ہے۔ لہازا وہ 65 سال کے ہو جانے پر 2028 میں ریٹائر ہو جاتے اور چیف جسٹس آف پاکستان نہ بن پاتے۔ چنانچہ جسٹس منیب اختر کو سنیارٹی کے اصول کے برعکس جسٹس یحییٰ آفریدی سے پہلے سپریم کورٹ کا جج تعینات کرکے یہ اہتمام کیا گیا کہ جسٹس منصور علی شاہ کی ریٹائرمنٹ پر وہی چیف جسٹس بنیں ۔
بلال غوری بتاتے ہیں کہ یہ صرف ایک جج کا معاملہ نہیں تھا بلکہ پوری ایک ترتیب بنائی گئی تھی، لیکن 26ویں آئینی ترمیم سے یہ سب کھیل دھرے کا دھرہ رہ گیا۔ فائز عیسیٰ چونکہ پارلیمنٹ کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں اس لئے وہ 26 ویں ترمیم کے ذریعے ہونے والی آئین سازی میں رکاوٹ نہیں بنے اور ادارہ جاتی مفادات کا تحفظ نہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنے حالانکہ یہ چند لوگوں کے ذاتی مفادات کے تحفظ کے مترادف تھا۔ بلال غوری بتاتے ہیں کہ چیف جسٹس فائز عیسی کی الوداعی تقریب کے دوران چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے مائیک سنبھالا تو محفل کشت زعفران کا منظر پیش کرنے لگی۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو الوداع کہتے ہوئے ملے جلے جذبات ہیں اور انکے جدا ہونے کا افسوس ہے۔ انکا کہنا تھس کہ قاضی فائز عیسیٰ نرم دل اور بہت خیال رکھنے والے انسان ہیں لیکن اگر آپ کسی وجہ سے انہیں مشتعل کر دیں یا یوں کہیے کہ ریچھ کے ساتھ چھیڑ خانی کر دیں تو پھر آپ کو جہنم میں بھی جگہ نہیں ملے گی۔ ایسی صورتحال میں ماسوائے خدا کے کوئی آپ کو ان کے غیظ و غصب سے نہیں بچا سکتا۔جسٹس یحیی آفریدی نے کہا کہ انہوں نے خود ذاتی طور پر کئی بار اس ریچھ کے اشتعال کا سامنا کیا ہے اور یہ تجربہ خوشگوار نہیں رہا۔ ت حقیقت یہ ہے کہ قاضی فائز عیسی نے اپنی چیف جسٹس شپ کے مختصر عرصے میں جتنی ذیادہ ریفارمز کیں، وہ اب تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں اور ان کے سنہرے دور کی یاد دلاتی رہیں گی۔