جسٹس منصور اور جسٹس منیب کا اپنا فیصلہ انکے گلے کیسے پڑ گیا؟
سپریم کورٹ کے تیسرے سینیئر ترین جج جسٹس یحیی آفریدی کی بطور چیف جسٹس نامزدگی کے بعد عمرانڈو وکلاء اور پی ٹی آئی رہنماؤں نے طوفان برپا کر رکھا ہے کہ کیسے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ کو چھوڑ کر کیسے جسٹس یحیی آفریدی کو چیف جسٹس بنایا گیا ہے۔
تاہم اس فیصلے پر تنقید کرنے والے یہ بھول گئے ہیں کہ اس اصول کی بنیاد کسی اور نے نہیں بلکہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے خود رکھی ہے۔ ماضی قریب میں لاہور ہائیکورٹ میں تیسرے نمبر پر موجود جسٹس کو چیف جسٹس تعینات کرنے کی سفارش کرنے والے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر اپنے ہی قائم کردہ اصولوں کی زد میں آکر سپریم کورٹ کی سربراہی سے محروم ہوئے ہیں۔ اس لئے اس فیصلے پر کسی اور کو ہدف تنقید بنانے آوٹ عدلیہ کو سیاست زدہ کرنے کی بجائے اپنی ہی اداؤں پر غور کرنا چاہیے۔
جسٹس منصورعلی شاہ اور جسٹس منیب اختر کے اصول
مبصرین کے مطابق اتفاقات زمانہ دیکھیے، جس اصول کی زد میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر آئے ہیں، یہ اصول یہی دونوں جج چند ماہ پہلے لاہور ہائی کورٹ میں لاگو کر چکے ہیں۔بطور رکن جوڈیشل کمیشن ان دونوں جج صاحبان نے ہائی کورٹ کے دو سینیئر ترین ججوں کو نظر انداز کرتے ہوئے تیسرے نمبر پر موجود جسٹس عالیہ نیلم کو چیف جسٹس بنانے کی سفارش کی تھی۔
قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ کا تعین کیسے کیا
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ اگرچہ مجھے یہ اختیار ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے لیے میں کوئی نام تجویز کروں لیکن میں ایسا نہیں کرتا، میں تین نام کمیشن کے سامنے رکھتا ہوں، کمیشن ان میں سے فیصلہ کر لے اور کمیشن نے میرٹ میں تیسرے نمبر پر موجود جسٹس صاحبہ کو چیف جسٹس بنانے کا فیصلہ کر لیا۔
مبصرین کے مطابق اگر لاہور ہائی کورٹ میں تیسرے نمبر پر موجود جسٹس کو چیف جسٹس بنایا جا سکتا ہے تو سپریم کورٹ میں تیسرے نمبر پر موجود جسٹس کو چیف جسٹس کیوں نہیں بنایا جا سکتا؟
جو چیز لاہور ہائی کورٹ کی حد تک بغیر کسی آئینی نکتے کے جائز سمجھی گئی وہی چیز سپریم کورٹ میں آئین کے آرٹیکل 26 کی روشنی میں ہو رہی ہے تو یہ ناجائز کیسے ہو گئی؟
سینیئر ترین جج کو چیف جسٹس نہ بنانے پر بعض وکلا آگ بگولا
تجزیہ کاروں کا مزید کہنا ہےکہ سینیئر ترین جج کو چیف جسٹس نہ بنانے پر بعض وکلا آگ بگولا ہوئے پھرتے ہیں، تاہم ان سے سوال یہ ہے کہ ایسا ہی کام جب ملک کے سب سے بڑے صوبے کی عدالت میں ہوا تو وہ کیوں خاموش رہے؟سینیارٹی کے جس اصول کی بنیاد پر اب رجز پڑھے جا رہے ہیں۔
یہ اصول اس وقت کیوں نہیں یاد آتا جب ہائی کورٹ سے ججوں کو سپریم کورٹ لایا جا رہا ہوتا تھا؟جسٹس منیب اخترکو جب سپریم کورٹ لایا گیا تو سندھ ہائی کورٹ میں ان سے سینیئر تین جج موجود تھے۔ اگر محض سینیارٹی ہی معیار ہے تو کیا کوئی رہنمائی فرمائے گا کہ ان تین ججوں کو کیوں نظر انداز کیا گیا؟ ان کی بجائے جسٹس منیب اختر کو ہی سپریم کورٹ کا حصہ کیوں بنایا گیا؟کیا جسٹس منیب اختر کی سپریم کورٹ میں تعیناتی الجہاد ٹرسٹ کیس کے فیصلے کی خلاف ورزی نہ تھی؟
تیسرے نمبر پر موجود جسٹس یحیی آفریدی چیف جسٹس نامزد ہو گئے
یاد رہے جسٹس منیب اختر کو سپریم کورٹ کا جسٹس بنانے پر نہ صرف سندھ بار کونسل کو اعتراض تھا بلکہ سندھ ہائی کورٹ کے بعض ججز بھی معترض تھے۔ تاہم اس وقت پراجیکٹ عمران کے داعی ہر صورت اپنے مشن کی تکمیل چاہتے تھے جس کیلئے انھیں مکمل عدالتی سپورٹ کی ضرورت تھی۔
اس مقصد کے حصول کیلئے اس وقت جسٹس یحیی آفریدی کی بجائے جسٹس منیب اختر کی پہلے سپریم کورٹ میں تعیناتی یقینی بنائی گئی تھی تاکہ جسٹس منیب اختر جسٹس یحیی آفریدی سے سپریم کورٹ میں سینیئر رہیں اور اعلی عدلیہ کی سربراہی ان کے نام اور جائے لیکن قدرت کو اور کچھ منظور تھا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے تحت تیسرے نمبر پر موجود جسٹس یحیی آفریدی چیف جسٹس نامزد ہو گئے ہیں۔
جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں تعیناتی
مبصرین کا مزید کہنا یے کہ کیا یہ حقیقت نہیں کہ جسٹس عائشہ ملک لاہور ہائی کورٹ میں سینیارٹی لسٹ میں چوتھے نمبر پر تھیں مگر ان سے سینیئر تین ججوں کو بائی پاس کر کے انہیں سپریم کورٹ کا جج بنایا گیا؟کیا جسٹس شاہد وحید، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس حسن اظہر رضوی کو بھی جونیئر ہونے کے باوجود سپریم کورٹ میں نہیں لایا گیا؟
مخصوص نشستوں بارے دو وضاحتی نوٹس کیوں؟
ناقدین کا مزید کہنا ہے کہ کیا حسین اتفاق ہے کہ مخصوص دونشستوں بارے دو بار وضاحتی نوٹ جاری کرنے والے آٹھ رکنی بینچ کے پانچ جج ایسے ہیں جنہیں جونیئر ہونے کے باوجود سپریم کورٹ لایا گیا اور سینیئرز کو نظر اندازکر دیا گیا۔ مبصرین کے مطابق یہ اتفاق ہے یا حسن اتفاق یا پھر کوئی اہتمام ہے؟ جسے 26ویں آئینی ترمیم کرکے الٹ دیا گیا۔
مبصرین کے مطابق ماضی میں یہ بھی ہوتا رہا کہ ہائی کورٹ سے پہلے جونیئر جج کو سپریم کورٹ لایا گیا اور پھر بعد میں نظر انداز ہونے والے سینیئر جج کو بھی سپریم کورٹ میں تعینات کر دیا گیا۔ کوئی پوچھنے والا نہ تھا کہ جسے پہلے نظر انداز کر دیا اب کیوں اسے لا رہے ہو۔ اور اب اسے سپریم کورٹ لا رہے ہو تو پہلے نظر انداز کیوں کیا تھا؟ حقیقت میں اس ساری کارروائی سے مرضی کے جج اوپر لا کر اور جونیئر کو سینیئر بنا کر ایک پوری فیلڈ سیٹ کی جاتی تھی۔
آئینی ترمیم کے تحت پارلیمان نے کوئی نئی بات نہیں کی
مبصرین کے مطابق 26ویں آئینی ترمیم کے تحت پارلیمان نے کوئی نئی بات نہیں کی، پارلیمان نے اسی اصول کو لاگو کیا جو پہلے ہی مختلف سطح پر رائج رہا۔ پارلیمان نے اگر آئین میں ترمیم کر دی ہے کہ محض حادثہ پیدائش ہی کو اہلیت کا واحد پیمانہ قرار نہیں دیا جا سکتا تو اس میں کیا غلط ہے؟