زہریلے عدالتی سانپوں کا زہر نکالنا ضروری کیوں ہو گیا تھا؟
معروف لکھاری اور تجزیہ کار حماد غزنوی نے کہا ہے کہ عدالتی آمریت نے اتحادی حکومت کو 26 ویں ائینی ترمیم لانے اور زہریلے سانپوں کا زہر نکالنے پر خود مجبور کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کروڑوں عوام کی منتخب کردہ پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قوانین کو گٹر میں ڈالنے والے عمراندار ججز اور ان کی تعصب زدہ عدالتیں 26ویں آئینی ترمیم منظور ہونے کے بعد اب تاریخ کا حصہ بننے جا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ 26ویں آئینی ترمیم کے موقع پر قومی اسمبلی میں سانپوں کی اقسام کے ذکر نے ہمیں کتنے ہی تاریخی کوبرے اور شیش ناگ یاد دلا دیے، جنہوں نے ہمارے دریائوں کے فیروزی پانیوں کو زہر آلود کر دیا، پانی جو زندگی کی ضمانت ہوا کرتا ہے، اسے ان زہریلے سانپوں نے موت کا پروانہ بنا دیا۔
روزنامہ جنگ کے لیے اپنی تازہ تجزیے میں حماد غزنوی کہتے ہیں یہ کہانی کبھی پرانی نہیں ہو گی۔جسٹس منیر نے فقط ایوب کے مارشل لا کو جائز قرار نہیں دیا تھا، بلکہ اس نے بعد میں آنے والے سب ڈکٹیٹرز اور ججز کو بھی آئین کو ڈسنے کا فارمولا سمجھا دیا تھا، عدلیہ کے لیے ایک گندی گالی بن جانے والے جسٹس منیر نے فرمایا تھا کہ فوجی مارشل لا دنیا بھر میں آئین کو بدلنے کا ایک مسلمہ اصول ہے۔ ملکی تاریخ کے سب سے بڑے "یک” یعنی جنرل ضیاالحق کے مارشل لا کو جج کا لبادہ اوڑھے کالے ناگوں نے ’’عوامی فلاح‘‘ کا ضامن قرار دیتے ہوئے جائز قرار دے دیا تھا۔ جب پرویز مشرف نے نواز شریف حکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لا کی بِین بجائی تو عدالتی طوائفوں نے ایک بار پھر سے مثالی مجرہ کیا اور داد سمیٹی۔
حماد غزنوی کہتے ہیں کہ 2007 میں ایک مرتبہ پھر وکلا تحریک، سول سوسائٹی اور ہماری سیاسی جماعتوں نے مل کر مشرف کے ہاتھوں برطرف ہونے والے افتخار چوہدری جیسے عدالتی سانپوں کو بحال کروایا اور دودھ پلایا۔ لیکن ان سانپوں نے خود کو بحال کرنے والے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو سب سے پہلے ڈسا اور نا اہل قرار دے کر گھر بھیج دیا۔ افتخار چوہدری دوبارہ چیف جسٹس بن کر واقعی زہریلے ناگ بن چکے تھے جن کے کاٹے کا کوئی علاج نہیں تھا، پھر ان کے بعد آنے والے سیاہ پوشوں نے بھی اسی زہریلی روایت کو پھنکارتے ہوئے آگے بڑھایا۔
کیا حامد میر کا فائز عیسی کو جسٹس منیر قرار دینا جائز ہے؟
حماد کہتے ہیں کہ ویسے تو روزِ اول سے ہماری عدلیہ کا کردار بدچلنی کا استعارہ رہا ہے مگر پچھلے 15 سال میں تو حد ہی ہو گئی، یہ سب تو ابھی کی باتیں ہیں، آنکھوں دیکھی، ہمارے حافظے میں تازہ۔ بلا شبہ، پاکستان کاحالیہ سیاسی عدم استحکام چند عدالتی فیصلوں کا شاخسانہ ہے۔ 26ویں آئینی ترمیم کو اسی پس منظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ انصاف گاہیں ابتدا سے ہی فوج کی حرم سرائوں میں ڈھل گئی تھیں، دونوں مل کر ہنسی خوشی زندگی گزار رہے تھے، اس دوران بد عہد ڈکٹیٹرز مارشل لا لگاتے رہے اور بے ضمیر ججز ان کی توثیق کرتے رہے، نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان کی آدھی زندگی مارشل لائوں کے سائے تلے گزری ہے۔ ضیا کی آٹھویں ترمیم کے تحت نوے کی دہائی میں تین بار اسمبلی توڑی گئی۔ پوری پارلیمان نے مل کر یہ ترمیم ختم کی تو پھر مشرف کا مارشل لا لگ گیا، ایسے میں جائیں تو جائیں کہاں۔ ملک میں دوبارہ جمہوریت آئی، 2008 میں پی پی پی کی حکومت بنی تو اسے نکیل ڈالنے کیلئے 58 دو بی کی تلوار موجود نہیں تھی۔ مگر جلد ہی کنگ کوبرا نے اس کا شافی حل ڈھونڈ لیا۔ آئین کی شقوں باسٹھ تریسٹھ کے تحت سیاست دانوں کی تذلیل کرنے اور انہیں نااہل کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا، جعلی ڈگریوں کی جعلی کہانیاں گھڑی گئیں، اور پھر آخر وزیرِ اعظم گیلانی کو توہینِ عدالت میں گھر بھیج دیا گیا۔یہ منتخب وزیرِ اعظم کو نکالنے کا برینڈ نیو طریقہ تھا جو بعد میں نواز شریف کو ڈسنے کے کام بھی آیا۔ ان ’خوش نیتی‘ پر مبنی فیصلوں کے زہر نے جسدِ ریاست کو نیلا کر دیا۔
حماد غزنوی کہتے ہیں کہ پارلیمان کے بنائے قانون کو عدالتیں گٹر میں بہانے لگیں، تین جج بیٹھ کر آئین کو ری رائٹ کرنے لگے، کھل کر سیاست ہونے لگی، پی ڈی ایم حکومت آئی تو اسے کہا گیا آپ افسروں کی پوسٹنگ ٹرانسفر نہیں کر سکتے، وزیرِ اعظم شہباز شریف کی صبح شام پیشیاں شروع ہو گئیں، اگر پارٹی سربراہ عمران خان ہیں تو عمر عطا بندیال کی جانب سے ایک فیصلہ دیا گیا، اگر پارٹی صدر چوہدری شجاعت حسین ہیں تو دوسرا فیصلہ دیا گیا، حمزہ شہباز کی پنجاب حکومت ختم کرنے کے لیے خلافِ آئین فیصلہ دیا گیا، جس کا مقصد صرف اور صرف سیاسی عدم استحکام پیدا کرنا تھا۔ یہ سب کچھ بلا خوفِ احتساب کیا جا رہا تھا کیوں کہ عدالت کے معاملات میں عوام اور ان کے نمائندوں کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔
حماد غزنوی کہتے ہیں کہ عدالتی ڈکٹیٹرشپ قائم کرنے والے ججز نے 26ویں ترمیم ’زبردستی‘ کروائی ہے۔ اپنے ’سائیں‘ سے تعلقات بگڑنے کے بعد عمراندار ججز کو محتاط ہو جانا چاہیے تھا، انہیں اپنی کینچلی بدل لینی چاہیے تھی، مگر وہ اپنی قلعہ بندی کے زعم میں مبتلا رہے۔
انکا کہنا یے کہ ویسے ترمیم کے جان لیوا عمل کے دوران یہ اندازہ تو سب کو ہو گیا ہو گا کہ حکومت پر حلیفوں کے کتنے چیکس ہوتے ہیں، ہر سیاسی پارٹی اپنی اپنی کانسٹی ٹیونسی کو جواب دہ ہوتی ہے۔ جب کہ عدالت تو سرے سے کسی کو جواب دہ ہی نہیں ہوا کرتی تھی۔ ہمارے بدترین اندیشے بھی درست ہو جائیں تو اُس سے برا کچھ نہیں ہو سکتا جو ہم دیکھ آئے ہیں۔ لیکن چلتے چلتے مولانا کا شکریہ جنہوں نے اس ترمیم کی تہذیب کی اور بلاول بھٹو جی کا شکریہ جنہوں نے ایک سازش کو ناکام بنایا اور ہمارے پانیوں کو مزید زہر آلود ہونے سے بچا لیا۔