کیا حامد میر کا فائز عیسی کو جسٹس منیر قرار دینا جائز ہے؟
سینیئر اینکر پرسن اور تجزیہ کار حامد میر نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی ریٹائرمنٹ سے ایک دن پہلے کلمہ حق بلند کرتے ہوئے انہیں جسٹس منیر سے بھی زیادہ برا چیف جسٹس قرار دے دیا ہے۔
حامد میر کا کہنا ہے اب کوئی یہ نہیں کہے گا کہ پنجاب نے نظریہ ضرورت کا بانی جسٹس منیر پیدا کیا، اب تو بہت سارے غیر پنجابی وکلاء بھی کہہ رہے ہیں کہ جسٹس منیر سے زیادہ برا جج بلوچستان نے پیدا کیا۔ تاہم حامد میر نے یہ نہیں بتایا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کو کون سے وکلا جسٹس منیر قرار دے رہے ہیں۔ اگر ان کا اشارہ حامد خان ایڈووکیٹ کی جانب ہے تو سچ یہ ہے کہ موصوف عمران خان کے قریبی ساتھی ہونے کے علاوہ تحریک انصاف کے سینیئر عہدے دار بھی ہیں لہذا وہ وکیل نہیں بلکہ سیاستدان ہیں جنہوں نے 2024 کے الیکشن میں شکست کھائی ہے۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں حامد میر بتاتے ہیں کہ انہیں بہت سارے لوگ یہ سوال کر رہے ہیں کیا آپ کو ندامت نہیں کہ آپ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جیسے جج کی حمایت کرتے رہے جس کا آج جسٹس محمد منیر کے ساتھ موازنہ کیا جا رہا ہے؟ حامد میر نے دعوی کیا ہے کہ انہوں نے بطور مشورہ نویس سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوا اور سابق وزیراعظم عمران خان دونوں کو جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف صدارتی ریفرنس دائر کرنے سے منع کیا تھا اور عمران نے انہیں یقین دہانی بھی کروا دی تھی کہ وہ ایسا نہیں کریں گے، تاہم انہوں نے بعد ازاں ریفرنس دائر کروا دیا۔ حامد میر دعوی کرتے ہیں کہ سابق آرمی چیف نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ فائز عیسیٰ کو ذاتی طور پر جانتے ہیں؟ میں نے بتایا کہ ان سے میری ملاقات تو دور کی بات کبھی علیک سلیک بھی نہیں ہوئی۔ یہ سن کر باجوہ صاحب نے کہا کہ آپ کو بہت جلد پتہ چل جائے گا کہ وہ کس قسم کے انسان ہیں۔
کیا سپر سیڈ ہو کر جسٹس منصور اور جسٹس منیب گھر چلے جائیں گے؟
حامد میر کے بقول مجھے سمجھ آ چکی تھی کہ فیض آباد دھرنا کیس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے سے آرمی چیف ناراض ہیں اور قاضی صاحب کے خلاف نااہلی کا ریفرنس تیار کیا جا رہا تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ ابھی اس ریفرنس کی کسی کو کانوں کان خبر نہ تھی لیکن میں نے اپنے ایک کالم میں فائز عیسیٰ کے خلاف طاقتور حلقوں کی متوقع کارروائی کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ انکا کہنا ہے کہ جنرل باجوہ اور میرے ایک مشترکہ دوست نے آرمی چیف کا شکوہ مجھ تک پہنچایا اور پیغام دیا کہ میں آئندہ فائز عیسیٰ کا دفاع نہ کروں۔
حامد میر دعوی کرتے ہیں کہ اس پیغام کے باوجود انہوں نے ایک اور کالم میں جنرل باجوہ کی گزارش کو نظر انداز کرتے ہوئے یہ لکھ مارا کہ عدلیہ کو فتح کرنے کی کوشش نہ کی جائے کیونکہ آخری فتح آئین و قانون کی ہو گی۔ انکا کہنا ہے کہ میرے کالموں سے جو کھلبلی مچی اس نے وزیر اعظم عمران خان کو بھی پریشان کر دیا۔ ایک دن خان صاحب نے مجھے وزیر اعظم ہائوس بلایا اور کہا کہ وہ کسی جج کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر رہے۔ جب میں رخصت ہو رہا تھا تو خان صاحب نے سرگوشی کے انداز میں مجھے کہا کہ تم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بتا دو کہ میں انکے خلاف کوئی سازش نہیں کر رہا۔ میں نے وزیر اعظم کو بتایا کہ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جانتا ہوں نہ میرا ان سے رابطہ ہے، میں تو صرف اسلئے بار بار لکھ رہا ہوں کہ میرے خیال میں حکومت کو عدلیہ سے محاذ آرائی نہیں کرنی چاہئے۔
حامد میر بتاتے ہیں کہ اب میرے اور جنرل باجوا کے مابین پیغام رسانی کرنے والا وہی مشترکہ دوست مجھ سے پوچھ رہا ہے کہ جسٹس فائز کی حمایت پر آپ کو ندامت ہے یا نہیں؟ یہ بتائے بغیر کہ قاضی فائز عیسی نے ایسا کیا کر دیا ہے کہ انکی حمایت کرنے والوں کو ندامت ہو، حامد میر کہتے ہیں کہ اپنی غلطی کا اعتراف کرنے میں بخل سے کام نہیں لینا چاہئے۔ چنانچہ میں نے اپنے دوست سے کہا کہ مجھے ندامت تو نہیں البتہ افسوس ضرور ہے۔ میرا خیال تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیض آباد دھرنا کیس میں جو فیصلہ لکھا وہ بالکل ٹھیک تھا کیونکہ خود میں نے بھی ہمیشہ سیاست میں خفیہ اداروں کی مداخلت پر تنقید کی ہے۔ فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ دراصل اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا تسلسل تھا لہٰذا میں کسی جج کی نہیں بلکہ اس موقف کی حمایت کر رہا تھا جس کی وجہ سے میں نے ذاتی طور پر بہت تکالیف اٹھائیں۔
حامد میر بتاتے ہیں کہ قاضی فائز عیسی کے چیف جسٹس بن جانے کے بعد میں نے ایک اور کالم میں لکھا کہ وہ سقوط آئین نہیں ہونے دیں گے کیونکہ یہ ہمیں سقوط ڈھاکہ سے بڑے سانحے سے دوچار کر سکتا ہے لیکن افسوس کہ میری رائے بالکل غلط نکلی۔ لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ فائز عیسی نے سقوط آئین کب اور کیسے کیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ چیف جسٹس بننے کے بعد قاضی فائز عیسیٰ نے فیض آباد دھرنا کیس میں اپنے فیصلے کی خود ہی خلاف ورزی کی اور خفیہ اداروں کی سیاسی مداخلت میں سہولت کار بن گئے۔ تاہم انہوں نے ایک مرتبہ پھر یہ نہیں بتایا کہ فائز عیسی نے فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کی کس طرح خلاف ورزی کی اور فوج کی سہولت کاری کے مرتکب کب اور کیسے ٹھہرے۔
سینیئر اینکر پرسن مزید لکھتے ہیں کہ قاضی صاحب 13 ماہ تک چیف جسٹس رہے لیکن اس دوران زیادہ وقت وہ اپنے ساتھی ججوں سے لڑتے رہے۔ تاہم عمومی تاثر یہی ہے کہ عمران خان اور انکی تحریک انصاف کے ساتھ کھلم کھلا سیاسی وابستگی کا اظہار کرنے والے دو سینیئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر اپنے چیف جسٹس کے ساتھ مسلسل محاذ آرائی کرتے رہے کیونکہ وہ ایک مخصوص ایجنڈے کی تکمیل چاہتے تھے۔ حامد میر لکھتے ہیں کہ جسٹس فائز کے دور میں ہائی کورٹس کے ججوں کے ساتھ وہی سلوک ہوتا رہا جو عمران خان کے دور میں جنرل فیض حمید نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے ساتھ کیا۔ تاہم حامد میر یہ بتانا بھول گئے کہ اپنے دور میں قاضی فائز عیسی نے نہ صرف فیض حمید کے خلاف ٹاپ سٹی سکینڈل میں کارروائی کا اغاز کیا تھا جس میں اب ان کا کورٹ مارشل ہو رہا ہے بلکہ انہوں نے جسٹس شوکت صدیقی کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا ازالہ بھی کیا اور انہیں بحال کرتے ہوئے باعزت ریٹائرمنٹ دی۔ حامد میر مذید الزام لگاتے ہیں کہ کہ فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس بننے کے بعد تاریخ کے سب سے متنازعہ الیکشن کمیشن کو تحفظ فراہم کیا جس نے متنازعہ ترین الیکشن کرایا۔ تاہم یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ملکی تاریخ کے متنازعہ ترین الیکشن 2018 میں ہوئے تھے جب جنرل باجوہ کی فوجی اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کو وزیراعظم بنانے کے لیے آئین اور قانون کی دھجیاں بکھیر دی تھیں اور یہ بات خود حامد میر ماضی میں اپنے کئی کالموں میں لکھتے چلے آئے ہیں۔