کیا سپر سیڈ ہو کر جسٹس منصور اور جسٹس منیب گھر چلے جائیں گے؟

سپریم کورٹ کے تیسرے سینیئر ترین جج جسٹس یحیٰی آفریدی کی بطور چیف جسٹس نامزدگی کے بعد قانونی و سیاسی حلقوں میں افواہیں گرم ہیں کہ فوج کی طرح سپریم کورٹ کے سپر سیڈ ہونے والے دونوں عمراندار سینیئر ترین جج یعنی جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر جلد مستعفی ہونے والے ہیں اور انھوں نے اس بارے قریبی رفقاء سے مشاورت بھی شروع کر دی ہے۔

اسی حوالے سے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ تیسرے سینیئر ترین جج جسٹس یحیی آفریدی کے چیف جسٹس بننے کے بعد سپر سیڈ ہونے والے دونوں سینیئر ججز استعفی دے دیں۔ انھوں نے اپنے مؤقف کے حق میں دلیل دیتے ہوئے کہا کہ اس سے پہلے جس طرح آرمی چیف کی تقرری کے بعد سپر سیڈ یونے والے سینیئر افسران استعفیٰ دے دیتے ہیں ویسے ہی اب اعلی عدلیہ میں ہو گا۔

جب جنرل عاصم منیر آرمی چیف تعینات ہوئے تو وہ سینیارٹی لسٹ میں پہلے نمبر پر تھے لیکن پھر بھی کئی دیگر جرنیلوں نے فوری استعفیٰ دے دیا تھا۔ چناچی خواجی آصف کو لگتا ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر مستعفی ہو جائیں گے۔

تین بار وزیراعظم بننے والے نواز شریف کو سچا پیار کیوں نہ ملا ؟

تاہم سینیئر صحافی فخر درانی کے مطابق اگرچہ میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ کو مستعفی ہونے کا مشورہ دیا گیا تھا لیکن سینئر جج کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ جسٹس یحییٰ آفریدی کی جانب سے سپر سیڈ کیے جانے کے باوجود جسٹس منصور علی شاہ عہدہ نہیں چھوڑیں گے۔ جسٹس منصور شاہ وقتی طور پر عمرہ کرنے کی خاطر سعودی عرب روانہ ہو گئے ہیں۔

جسٹس یحییٰ آفریدی کا جسٹس منصور کو استعفےٰ دینے کا مشورہ

دوسری جانب یہ افواہیں بھی گرم ہیں کہ جسٹس یحیی آفریدی نے جسٹس منصور علی شاہ کو مستعفی ہونے کا مشورہ دیا ہے۔

تاہم جسٹس منصور کے قریبی ذرائع نے تردید کی ہے کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے ان چیمبر میٹنگ کے دوران جسٹس منصور کو استعفےٰ دینے کا مشورہ دیا تھا۔

ذرائع نے ان خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا، ’’یہ سب بالکل جھوٹ ہے، ایسا کچھ نہیں ہوا۔‘‘ جب سوال کیا گیا کہ کیا سینئر پیونی جج جسٹس منصور علی شاہ سپریم کورٹ کے جج کے طور پر اپنی خدمات جاری رکھیں گے تو ذرائع نے تصدیق کی کہ وہ اپنے عہدے پر کام کرتے رہیں گے اور انکا مستعفی ہونے کا کوئی ارادہ نہیں۔

دوسری جانب ایک اور ذریعے نے بھی یہ دعویٰ کیا ہے کہ جسٹس منیب اختر بھی عہدے پر کام کرتے رہیں گے اور ان کا بھی مستعفی ہونے کا کوئی ارادہ نہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ آئین کے تحت بھی بالکل ضروری نہیں کہ سپر سیڈ ہونے والے ججز عہدہ چھوڑ دیں۔

سپر سیڈ ہونے والے ججز مستعفی نہیں ہونگے

ماضی میں، کچھ سینئر ججوں کو سپر سیڈ کیا گیا تھا لیکن اس کے باوجود یہ ججز سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں اپنے عہدوں پر کام کرتے رہے ہیں۔ 1994ء میں حکومت نے جسٹس سعد سعود جان کو نظرانداز کرتے ہوئے سینئر جج جسٹس اجمل میاں کو چیف جسٹس کے عہدے کی پیشکش کی جنہوں نے جسٹس سعد سعود کے احترام میں انکار کر دیا۔

دوسرے سینئر ترین جج جسٹس عبدالقدیر چوہدری نے بھی اس پیشکش کو ٹھکرا دیا۔ تاہم سنیارٹی لسٹ میں چوتھے نمبر پر رہنے والے جسٹس سجاد علی شاہ نے چیف جسٹس کا عہدہ قبول کیا۔

لیکن سپر سیڈ ہونے کے باوجود جسٹس اجمل میاں اور جسٹس عبدالقدیر چوہدری دونوں نے استعفیٰ نہیں دیا اور سپریم کورٹ میں جج کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔

دوسری جانب سپریم کورٹ کے تیسرے سینیئر ترین جج جسٹس یحیی آفریدی کی بطور چیف جسٹس سپریم کورٹ نامزدگی کے بعد افواہیں زیر گردش ہیں کہ اب جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر جوڈیشل کمیشن سمیت اہم کمیٹیوں کا حصہ نہیں رہیں گے۔

 سب سے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ

 لیکن اٹارنی جنرل عثمان اعوان کا ایسی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے سب سے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ بدستور پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی اور جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کا حصہ رہیں گے۔ اٹارنی جنرل کے مطابق جسٹس شاہ ہی بدستور سب سے سینئر جج سمجھے جائیں گے۔

یہ بحث اس وقت سامنے آئی جب جسٹس منصور علی شاہ کو چیف جسٹس نہیں بنایا گیا، جس سے یہ سوال پیدا ہوا کہ آیا وہ اب بھی سب سے سینئر جج سمجھے جائیں گے یا نمبر چار جج یعنی نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے بعد سب سے سینئر جج اس مقام پر آئیں گے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس کے مطابق، بنچ بنانے اور کیس فکسنگ کا کام تین رکنی کمیٹی کے ذریعے کیا جانا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب اس کمیٹی میں وہ سینئر ترین جج شامل ہوگا جسے اس کے جونیئر نے پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اس پر یہ بحث بھی ہو رہی ہے کہ آیا اب قوانین کے مطابق اس کمیٹی میں سینئر ترین جج کو شامل کرنا مناسب ہوگا جنہیں چیف جسٹس نہیں بنایا گیا۔

قانونی ماہرین کے مطابق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کہتا ہے کہ موجودہ چیف جسٹس اور دو سب سے سینئر جج مل کر بینچز بنانے اور مقدمات کو ترجیح کے مطابق فکس کرنے کے فیصلے کریں گے۔

بعد میں، ستمبر میں ایک ترمیمی آرڈیننس کے ذریعے کہا گیا کہ اس پینل میں چیف جسٹس، سب سے سینئر جج اور تیسرا رکن وہ ہو گا جسے چیف جسٹس نامزد کرے گا۔ بعض دیگر قانونی ماہرین کے مطابق جن ججوں کو پیچھے چھوڑا گیا ہے وہ سینئر ترین جج نہیں سمجھے جا سکتے۔

جسٹس امین الدین سینئر ترین جج ہوں گے

اب جسٹس امین الدین، جو نامزد چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحیی آفریدی کے بعد سب سے سینئر ہیں، سینئر ترین جج ہوں گے۔” ان کے مطابق پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت کمیٹی آئینی مقدمات کے علاوہ دیگر مقدمات کے لیے کام کرے گی۔

آئینی مقدمات کو براہ راست آئینی بینچ دیکھے گا۔ اس طرح مقدمات کی تقسیم سے مزید ابہام پیدا ہو گا اور وقت بھی لگے گا۔ سپریم کورٹ شاید اس وقت تک جامد ہو جائے جب تک کہ یہ معاملہ حل نہ ہو جائے۔

ماہرین کے بقول آخر کار، صورتحال ایک ایسے مقام تک پہنچ سکتی ہے جہاں آپ کو آئینی بنچ کے لیے مکمل طور پر ایک علیحدہ نظام کی ضرورت ہو گی، جو کہ ایک نئے آئینی ترمیمی بل یعنی 27 ویں ترمیم کا راستہ ہموار کرے گا۔

تاہم بعض دیگر قانونی ماہرین کے بقول جسٹس شاہ "اگرچہ چیف جسٹس کے لیے نہیں چنے گئے، لیکن وہ اب بھی سب سے سینئر جج ہیں اور انہیں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ ترمیمی آرڈیننس کے تحت کمیٹی کا حصہ ہونا چاہیے۔” انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ حالات میں صرف انتشار ہے اور تکنیکی طور پر سپریم کورٹ اور اعلیٰ عدالتیں "معطل” کی حالت میں رہیں گی جب تک کہ 26ویں آئینی ترمیم کی وضاحت نہیں آئے گی۔

Back to top button