جسٹس منیب اختر انصاف کی کرسی چھوڑ کر سیاستدان کیسے بنے؟
سپریم کورٹ میں ججز کے درمیان تقسیم اور گروپنگ کھل کر سامنے آ گئی، جسٹس منصور علی شاہ کے بعد جسٹس منیب اختر بھی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف میدان میں آ گئے۔ جہاں ایک طرف جسٹس منیب اختر نے نئے پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس کمیٹی کے تحت تشکیل دئیے گئے بینچز کو ماننے سے انکار کر دیا وہیں چیف جسٹس کی سربراہی میں دوسال سے التواء کا شکار آرٹیکل 63 اے کی نظر ثانی درخواست کی سماعت سے بھی معذرت کر لی۔ کیس سننے سے انکار کے بعد سپریم کورٹ کے عمراندار ججز کے ٹولے کے سرگرم رکن جسٹس منیب اختر ایک بار پھر حکومت کے دوتہائی اکثریت کے حصول میں رکاوٹ بن گئے تاہم چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آرٹیکل 63 اے کی نظر ثانی درخواست کو نمٹانے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے جسٹس منیب کے رام نہ ہونے پر نیا بینچ تشکیل دینے کا عندیہ دے دیا۔
خیال رہے کہ منحرف اراکین پارلیمنٹ کا ووٹ شمار نہ کرنے کے فیصلے کے خلاف آرٹیکل 63 اے پر نظرثانی اپیلیں پر سماعت ہوئی تاہم وہ جسٹس منیب کی عدم شرکت پر ملتوی ہوگئی، چیف جسٹس نے انہیں منانے کا عندیہ دیا اور کہا کہ انہیں راضی کریں گے اگر وہ شامل نہ ہوئے تو نیا بینچ تشکیل دیا جائے۔ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے پر نظرثانی اپیلوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس مظہر عالم کمرہ عدالت پہنچے تاہم جسٹس منیب اختر کمرہ عدالت میں نہیں آئے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلالیا اور ریمارکس دیے کہ کیس کے حوالے سے لارجر بینچ آج بنا تھا، کیس کا فیصلہ ماضی میں 5 رکنی بینچ نے سنایا تھا۔جسٹس منیب اختر نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو خط تحریر کر دیا، دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس منیب اختر کا خط پڑھ کر سنایا۔
جسٹس منیب اختر نے اپنے خط میں لکھا میں کیس سننے سے معذرت نہیں کر رہا، ایک بار بینچ بن چکا ہو تو کیس سننے سے معذرت صرف عدالت میں ہی ہو سکتی ہے۔جسٹس منیب اختر نے لکھا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی نے بینچ تشکیل دیا ہے، کمیٹی کے تشکیل کردہ بینچ کا حصہ نہیں بن سکتا، بینچ میں بیٹھنے سے انکار نہیں کر رہا، بینچ میں شامل نہ ہونے کا غلط مطلب نہ لیا جائے، میرے خط کو نظر ثانی کیس ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ ایسےخط کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنانے کی روایت نہیں ہے، جسٹس منیب کا خط عدالتی فائل کا حصہ نہیں بن سکتا، مناسب ہوتا جسٹس منیب اختربینچ میں آکر اپنی رائے دیتے، میں نے اختلافی رائے کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی ہے، نظرثانی کیس دو سال سے زائد عرصہ سے زیرالتواء ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا 63 اے کا مقدمہ بڑا اہم ہے، جج کا مقدمہ سننے سے انکار عدالت میں ہوتا ہے، جسٹس منیب اختر کی رائے کا احترام ہے۔
سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ نے کیس سنا تھا، آرٹیکل 63 اے کا 3 رکن اکثریتی فیصلہ دیا گیا تھا، شفافیت کی بنیاد پر بینچ تشکیل دیا گیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دئیے کہ قانون کا تقاضا ہے نظرثانی اپیل پر سماعت وہی بینچ کرے، سابق چیف جسٹس کی جگہ میں نے پوری کی، جسٹس اعجازالاحسن کی جگہ جسٹس امین الدین کو شامل کیا گیا، ہم جسٹس منیب اختر سے درخواست کریں گے کہ بینچ میں بیٹھیں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس منیب اختر کو بینچ میں شامل ہونے کی درخواست کر دی اور کہا کہ جسٹس منیب اختر کو بینچ میں واپس لانےکی کوشش کریں گے ورنہ بینچ کی تشکیل ازسرنو ہو گی۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا امید ہے جسٹس منیب اختر دوبارہ بینچ میں شامل ہو جائیں گے، جسٹس منیب اختر بینچ میں شامل ہوتے ہیں یا نہیں، دونوں صورتوں میں کل کیس کی سماعت ہو گی۔سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے تشریح کے فیصلے پر نظرثانی اپیلوں پر سماعت کل صبح ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کر دی۔
واضح رہے کہ پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس بھیجا گیا تھا، سپریم کورٹ کے تین رکنی اکثریتی فیصلے میں کہا گیا منحرف اراکین کا ووٹ شمار نہیں ہوگا، اکثریتی فیصلے کی رائے جسٹس منیب اختر نے تحریر کی تھی جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس مظہر عالم میاں نے اکثریتی رائے سے اختلاف کیا تھا۔ 17 مئی 2022 کو سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ منحرف رکن اسمبلی کا پارٹی پالیسی کے برخلاف دیا گیا ووٹ شمار نہیں ہوگا، جبکہ نااہلی کی مدت کا تعین پارلیمنٹ کرے گی۔اس وقت کے چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت مکمل کرنے کے بعد فیصلہ 2 کے مقابلے میں 3 کی اکثریت سے سنایا تھا، جس کے مطابق پارٹی پالیسی کے خلاف رکن اسمبلی کا نہ صرف ووٹ شمار نہیں ہوگا بلکہ وہ نااہل بھی ہوجائے گا۔