عمران دور میں بھی فوجی عدالت نے شہباز دور والی سزائیں کیوں سنائیں؟

فوجی عدالتوں کی جانب سے 9 مئی 2023 کو عسکری تنصیبات پر حملوں میں ملوث 85 ملزمان کو سزائیں سنانے پر پی ٹی آئی کے علاوہ امریکہ اور برطانیہ نے بھی تنقید تو کی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ نہ تو یہ عدالتیں اب وجود میں آئی ہیں اور نہ ہی انہوں نے پہلی بار سویلینز کو سزائیں دی ہیں۔ فوجی عدالتیں دراصل پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے تحت بنائی گئی تھیں جنہوں نے عمران خان کے دور حکومت میں بھی 46 سویلینز کو قید کی سزائیں سنائی تھیں۔ اب انہی عدالتوں نے تحریک انصاف کے 85 ہمدردوں کو سزائیں سنائی ہیں جو کہ 9 مئی کے حملوں میں ملوث تھے جن کے ویڈیو ثبوت بھی موجود ہیں۔

تاہم تحریک انصاف میڈیا پر یہ موقف پیش کر رہی ہے کہ پاکستان کے قوانین ملٹری کورٹس کو غیر آئینی طور پر سویلینز کا ٹرائل کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ یاد رہے کہ حال ہی میں سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کو 9 مئی کے ملزمان کو سزائیں سنانے کی اجازت دی تھی جس کے بعد ملٹری کورٹس نے 85 ملزمان کو دو سے دس سال تک کی سزائیں سنائیں۔
غیر ملکی میڈیا ویب سائٹ ڈی ڈبلیو کی ایک رپورٹ کے مطابق ملٹری کورٹس سے حالیہ سزا یافتہ لوگوں کے قریبی عزیزوں نے بتایا ہے کہ پاکستان میں ایک ایسا بھی قانون ہے جو وکلا اور ملزمان کو پابند کرتا ہے کہ وہ ملٹری کورٹس میں ہونے والی کارروائی کے بارے تفصیلات بھی بیان نہیں کر سکتے اور ایسا کرنے والے کے خلاف پرچہ کاٹا جا سکتا ہے۔

قانونی ماہرین کے مطابق انگریز دور کا بنایا ہوا آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 پاکستان میں ابھی تک رائج  ہے۔ اس قانون کے سیکشن 14 کے تحت نہ صرف عام لوگوں بلکہ ملزمان کے ورثاء کو بھی عدالتی کارروائی کو دیکھنے سے روکا جا سکتا ہے اور عدالتی کارروائی میں شامل لوگوں بشمول کہ وکلا کو پابند کیا جا سکتا ہے کہ وہ کارروائی کی تفصیلات بیان نہ کریں۔ عمران خان کے سگے بھانجے حسان نیازی کو 10 برس قید کی سزا سنائی جانے کے بعد ان کے والد حفیظ اللہ نیازی نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ وہ ملٹری کورٹس میں ہونے والی کارروائی ہو بہو بیان نہیں کر سکتے البتہ صرف اتنا بتا سکتے ہیں کہ فیصلے کرتے وقت کسی قانونی پہلو کو مد نظر نہیں رکھا گیا اور من پسند فیصلے سنائے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ انکے بیٹے کے خلاف ایسا کوئی ثبوت نہیں تھا جس پر اسے دس سال کی سزا دی جاتی۔ حسان کے خلاف جو گواہ پیش کیے گئے انہوں نے اسے شناخت کرنے سے انکار کیا۔ لہٰذا انہیں ابھی تک یہ بھی معلوم نہیں کہ اسے کس بنیاد پر سزا دی گئی۔

تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ لاہور کے کور کمانڈر ہاؤس پر حملے کی جو ویڈیوز آج بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہے ان میں صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ حسان نیازی ایک فوجی جرنیل کی وردی کو ڈنڈے پر ٹانگنے کے بعد  آگ لگا رہے ہیں۔
دوسری جانب حفیظ اللہ نیازی کا اصرار ہے کہ یہ ظلم ہے کہ سویلینز کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلائے جا رہے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ حسان نے بطور وکیل خود اپنا کیس پیش کیا لیکن ابھی تک اسکے خلاف دیے گے فیصلے کی تفصیل فراہم نہیں کی گئی۔

ملٹری کورٹس کے کچھ ملزمان کے کیسز  لڑنے والی ایک وکیل خدیجہ صدیقی کا کہنا تھا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ جیسا قانون انتہائی حساس معاملات بشمول ملکی راز یا حساس فوجی تنصیبات بارے معلومات لیک کرنے پر لاگو ہوتا ہے لیکن اسے عام شہریوں پر لاگو کر دیا گیا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ اگر فوجی عدالت میں ہونے والی عدالتی کارروائی کی تفصیلات بتائی جائیں تو وہ ایک مذاق کے علاوہ کچھ نہیں، اس لیے بتانے پر سخت پابندی ہے۔ ہاں یہ بات میں ضرور بتانا چاہوں گی کہ فیصلے کسی بھی قانون کے نہیں بلکہ مرضی کے مطابق کیے گئے اور  وقت کے ساتھ یہ بات مزید واضح ہو جائے گی۔ فوجی عدالتیں فیصلے دیتے وقت شہادتوں کو خاطر میں ہی نہیں لائیں۔

ملٹری کورٹس سے سزا یافتہ ایک پی ٹی آئی ورکر کے بھائی نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے بتایا کہ انکے بھائی سے اقبالی بیان لے کر اسے چھ سال کی سزاسنائی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میرے بھائی کو مبہم و یڈیو کی بنیاد پر سزا نہیں سنائی جا سکتی تھی  لہٰذا  اس سے تشدد کے ذریعے اقبالی بیان لیا گیا اور سزا سنا دی گئی۔ یہ بات بھی اس نے ملاقات کے دوران خود ویڈیوزمیں بتائی تھی کیونکہ ملاقات کے وقت کیمروں کے علاوہ سکیورٹی اہلکار سر پر کھڑے رہتے تھے اور کوئی بھی تفصیلات بتانے سے فوری طور پر روک دیتے تھے۔ انکا کہنا تھا کہ تشدد کے باوجود میرا بھائی اقبالی بیان نہ دیتا لیکن جب اسے ناخن کھینچنے کی دھمکی دی گئی تو اس نے تکلیف سے بچنے کے لیے بہتر جانا کہ جو بھی جرم وہ کہتے ہیں اسے تسلیم کر لیا جائے۔ سزا یافتہ الزام دہندہ کے بھائی کا مزید کہنا تھا کہ ”میرا بھائی پڑھا لکھا انسان ہے۔ اس نے قید کے دوران اپنے پیپرز دینے کی بھی درخواست کی جو رد کر دی گئی۔

فوجی عدالت سے قید کی سزا پانے والے ایک اور پی ٹی آئی کارکن کے والد کا کہنا تھا کہ مظاہرین تو جذباتی ہوتے ہیں  لہذا جب انہیں گیٹ کھلے ملے تو وہ کور کمانڈر ہاؤس یا جناح  ہاؤس کے اندر چلے گئے، بس اتنا کرنے سے کیا وہ دہشت گرد بن گئے۔ تاہم عسکری حلقوں کا کہنا ہے کہ 9 مئی کے حملے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت کیے گئے جن کا نشانہ ملک بھر میں صرف اور صرف فوجی تنصیبات ہی تھیں۔ انکا کہنا تھا کہ تمام ملزمان کو مضبوط ثبوتوں کی بنیاد پر سزائیں سنائی گئیں اور انہیں وکلا بھی فراہم کیے گئے تھے جو ان کا دفاع کرنے میں ناکام رہے۔

دوسری جانب خدیجہ صدیقی ایڈووکیٹ کہتی ہیں کہ ابھی تک 85 مجرموں میں سے کسی کو تفصیلی فیصلہ فراہم نہیں کیا گیا جبکہ قانون کے مطابق فیصلہ فراہم کرنا ضروری ہوتا ہے تا کہ چیلنج کرنے سے پہلے پتہ ہو کہ کس جرم میں سزا دی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سب لوگوں سے رحم کی اپیلوں پر بھی زبردستی دستخط کروا لیے گئے ہیں۔ یہ بھی انہیں مجرم ثابت کرنے کی ایک کوشش ہے کیونکہ رحم کی درخواست تو وہی کرتا ہے جو جرم وار ہوتا ہے۔ انکا کہنا تھا اب صرف ایک امید ہے کہ آئینی بنچ سپریم کورٹ کے پرانے فیصلے کو برقرار رکھے جسکے تحت ملٹری کورٹس سویلینز کا ٹرائل نہیں کر سکتیں۔

Back to top button