190 ملین پاونڈز کرپشن نے عمران کا بھیانک چہرہ کیسے بے نقاب کیا ؟

معروف لکھاری اور تجزیہ کار سینٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ 26 برس تک دوسروں کو چور، ڈاکو، لٹیرے، منی لانڈر، کرپٹ اور عوام دشمن قرار دینے والے نام نہاد مسیحا عمران خان کا بھیانک چہرہ 190 ملین ڈالز کرپشن کیس کے عدالتی فیصلے نے پوری طرح بے نقاب کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ القادر ٹرسٹ یونیورسٹی کی آڑ میں غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کے مبارک نام پر کرپشن کی واردات کرنے والا بانی پی ٹی آئی اللہ تعالی کی پکڑ میں آ گیا ہے۔ لیکن پھر بھی موصوف کے ساتھی بے حیائی سے یہ شرمناک دلیل پیش کر رہے ہیں کہ یہ سب کچھ سرکارِ مدینہ کی تعلیمات کے فروغ کیلئے کیاجا رہا تھا۔

روزنامہ جنگ کےلیے اپنی تازہ تحریر میں عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ کرپشن کی یہ واردات درجنوں سوالات اٹھا رہی ہے لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ اگر خان اور اُنکے شریکِ جرم ساتھیوں نے ملک ریاض کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا تھا تو پھر سینکڑوں ایکڑ اراضی، نقد رقوم، ہیرے جواہرات اور لاتعداد دوسری عنایات کی برکھا عمران خان اور بشریٰ بی بی پر کیوں برستی رہی؟ کیا کوئی کاروباری شخص اس قسم کے ’’سودے‘‘ کا تصور بھی کرسکتا ہے چاہے اُس کے سینے میں حاتم طائی کا دِل ہی کیوں نہ دھڑکتا ہو؟ وہ 190 ملین پائونڈز کرپشن کی ہوش ربا تفصیلات بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور بحریہ ٹائون کے درمیان وسیع وعریض زمین کاتبادلہ ہوا۔ معاملہ سپریم کورٹ پہنچا تو اِس ڈیل کو خلافِ قانون اور ناجائز قرار دیتے ہوئے بحریہ ٹائون پر 460 ارب روپے کا جرمانہ عائد کر دیا گیا۔ ساڑھے سات برس میں یہ رقم ادا کرنے کیلئے قسط بندی کر دی گئی اور اس مقصد کیلئے، سپریم کورٹ کے زیرنگرانی، نیشنل بینک میں ایک خصوصی اکائونٹ کھول دیا گیا۔

2018ء میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے ملک ریاض کے کچھ کھاتوں میں بے قاعدگی کا سراغ لگایا، اس کی تحقیقات کیں اور اُنہیں جُرم سے نتھی کرتے ہوئے منجمد کر دیا۔ باہمی سمجھوتے کے تحت، مزید کسی قسم کی عدالتی کارروائی کے بغیر 190ملین پائونڈز کی رقم، ریاستِ پاکستان کو منتقل کرنے کا فیصلہ ہوا۔ برطانوی کرائم ایجنسی یا این سی اے نے باضابطہ طور پر پاکستان کو مطلع کر دیا۔ یہاں سے کہانی کا تیسرا بابِ تحیّر کھُلتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے مشیرِ احتساب شہزاد اکبر بھاگم بھاگ لندن پہنچے۔ کرائم ایجنسی کی انتظامیہ اور بحریہ ٹائون کے ملک ریاض سے ملاقاتیں کیں۔ یہاں برطانیہ اور پاکستان کے درمیان ایک اور معاہدہ طے پایا۔ شہزاد اکبر ڈھول پیٹتے ہوئے وطن واپس آئے کہ تاریخ کی سب سے بڑی رقم بازیاب کروا لی گئی ہے جو ریاستِ پاکستان کو واپس مل رہی ہے۔

تاہم عرفان صدیقی کے بقول انتہائی مجرمانہ واردات یہ ہوئی کہ شہزاد اکبر نے، برطانوی ایجنسی کو رقم جمع کرانے کے لئے ریاستِ پاکستان کے اکائونٹ کے بجائے، پراپرٹی ٹائیکون کے اُس کھاتے کا نمبر دے دیا جو بحریہ ٹائون کے جرمانے کی ادائیگی کے لئے کھُلا تھا۔ سادہ الفاظ میں یہ کہ جس فرد سے برطانوی ایجنسی نے بھاری رقم وصول کرکے ریاست پاکستان کو بھیجنا تھی، پاکستان کے برسراقتدار طاقت ور گروہ نے اُسی فرد کو واپس کردی۔ لہٰذا ٹیکس کاٹ کر 171 ملین پائونڈ سے زائد رقم پاکستان تو آ گئی لیکن پاکستان کے عوام اُس سے محروم کردیے گئے۔

اب سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں کیا گیا؟ ایسا کرنے والوں کو کیا ملا؟ کیا یہ واقعی سنگین کرپشن کی واردات تھی؟ کہانی کے مختلف ابواب اِن سوالوں کا نہایت واضح جواب دیتے ہیں۔ اقتدار کے ایوانوں کی نیم تاریک راہداریوں اور اسلام آباد کے کچھ پُرتعیش گھروں میں معاملات طے پائے۔مفادِ باہمی کی خفیہ ’’مفاہمتی یادداشت‘‘ کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ایک عجوبۂِ روزگار واردات دسمبر کے اوائل میں ہوئی۔ وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت، کابینہ کا اجلاس، رسمی ایجنڈے کی تکمیل کے بعد ختم ہونے کو تھا کہ شہزاد اکبر نے ایک سیل بند لفافہ لہراتے ہوئے کہا __ ’’ایک ایجنڈا آئٹم اور بھی ہے۔‘‘ نصف درجن وزرا نے سوال اٹھایا کہ ’’ہمیں کیا معلوم اس بند لفافے میں کیا ہے؟ ہم کیسے آنکھیں بند کرکے اسکی منظوری دیدیں۔‘‘ لیکن پارسا وزیراعظم نے یہ اعتراض مسترد کردیا۔ چنانچہ وزرا خاموش ہوگئے۔ اس خاموشی کو ایجنڈا آئٹم کی توثیق قرار دے دیا گیا۔

عرفان صدیقی بتاتے ہیں کہ دو ہفتوں بعد، جنوری 2020ءمیں، تحصیل سوہاوہ ضلع جہلم میں بحریہ ٹائون نے 485 کنال زمین وزیراعظم عمران خان کے رفیقِ خاص اور دستِ راست ذُلفی بخاری کے نام کر دی ۔ راتوں رات القادر یونیورسٹی پراجیکٹ ٹرسٹ بھی رجسٹر کرا دیاگیا۔ جنوری 2021ء میں یہ ساری زمین چار ٹرسٹیوں یعنی عمران خان، بشریٰ بی بی، بابر اعوان اور ذُلفی بخاری پر مشتمل ٹرسٹ کے نام منتقل ہو گئی۔ چار ماہ بعد ٹرسٹ کے چیئرمین عمران خان متعلقہ اتھارٹی کو خط لکھ کر بابراعوان اور ذُلفی بخاری کو اس ٹرسٹ سے خارج کر دیتے ہیں۔ یوں زمین سمیت ٹرسٹ کے سارے اثاثے میاں بیوی کی ملکیت بن گئے۔

عمران کی ’’ریاست مدینہ‘‘ میں رقم ہونیوالی اس پُراسرار داستان نے، امانت ودیانت کی ایک صوفیانہ کروٹ اُس وقت لی جب 137 سال پرانے، ٹرسٹ ایکٹ1882ءمیں ترمیم کرتے ہوئے وفاقی حکومت کی جانب سے ’اسلام آباد ٹرسٹ ایکٹ 2020 نافذ کر دیا گیا۔ کہا گیا کہ اسلام آباد کی حدود میں واقع تمام ٹرسٹ، نئے قانون کے تحت خود کو رجسٹر کرائیں ورنہ اُن کی رجسٹریشن منسوخ ہو جائے گی۔ لیکن کوئی باور کرسکتا ہے کہ خود’ القادر ٹرسٹ‘ نے اپنے آپ کو نئے قانون کے تحت رجسٹر نہ کرایا اور یوں صرف آٹھ ماہ بعد، قانون کی نظر میں ’القادر ٹرسٹ‘ دَم توڑ گیا۔ اِس کی ساری زمین اور تمام اثاثے عمران خان اور بشریٰ بی بی کے ذاتی تصرف میں آ گئے۔

عدالتی فیصلے میں ایک اور حیرت فزا کہانی کی تفصیلات سامنے آئی ہیں کہ جن دِنوں 171 ملین پائونڈ ایک مخصوص کھاتے میں گئے اور ’القادر یونیورسٹی‘ کا بابِ فضیلت کھُلا، عین اُنہی دِنوں جولائی اور اکتوبر2021ءمیں، بحریہ ٹائون مالکان کی طرف سے دو قسطوں میں، بنی گالہ کے قرب وجوار میں 245 کنال نہایت قیمتی اراضی بشریٰ بی بی کی قریبی دوست فرح شہزادی کے نام منتقل کی گئی۔ بحریہ ٹائون انتظامیہ اور بشریٰ بی بی کے دستخطوں سے ایک اور معاہدہ بھی سامنے آیا ہے جس کے تحت ’القادر یونیورسٹی‘ کی تعمیر، فرنیچر، ہرنوع کے سازوسامان اور عملے کی تنخواہوں سمیت تمام اخراجات ِجاریہ کی ذمہ داری بحریہ ٹائون نے اٹھالی۔

 عمران خان کی پارسائی کے جھوٹے دعوے کیسے بے نقاب ہوئے؟

عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ حسین شہید سہروردی سے شہباز شریف تک وزرائے اعظم اور سیاستدانوں پر کرپشن کے کیسے الزامات نہیں لگے۔ کسی ان میں سے کسی ایک پر بھی ایسے ٹھوس، ناقابلِ تردید اور واضح شواہد کے ساتھ مقدمہ نہیں بن پایا۔ 190ملین پائونڈ تو دیدہ دلیری ، بدعنوانی اور لوٹ مار کی ایسی کہانی ہے جس میں کوئی جھول ہے نہ کمی۔ ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی سے لیکر 171 ملین پائونڈ ایک مخصوص کھاتے میں ڈالنے اور اس کھاتہ دار سے اربوں روپے رشوت اور ’’کک بیکس‘‘ کے طور پر وصول کرنے کی کہانی کی تمام چُولیں مضبوطی سے ایک دوسرے میں پیوست ہیں اور زنجیر کی ہر کڑی، دوسری کڑی سے جُڑی ہے۔

Back to top button