کیا گوادر ایئرپورٹ بھی گوادر بندرگاہ کی طرح فلاپ ہو جائے گا؟

گوادر میں بالآخر پہلے بین الاقوامی ایئرپورٹ کا افتتاح تو کر دیا گیا ہے لیکن گوادر کی بندرگاہ کی طرح یہ ایئرپورٹ بھی ایک سٹریٹیجک اثاثہ تو ثابت ہو سکتا ہے لیکن پاکستان کو کوئی کمرشل یا اکنامک فائدہ پہنچاتا نظر نہیں آتا۔
حکام کے مطابق سالانہ چار لاکھ مسافروں کی گنجائش رکھنے والے گوادر ایئرپورٹ کے منصوبے کی منظوری 2009 میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے دی تھی جبکہ اس کی تعمیر کی آغاز 2019 میں ہوا۔ یوں اس ایئرپورٹ کو کمرشل پروازوں کے لیے پوری طرح آپریشنل ہونے میں لگ بھگ 16 سال کا عرصہ لگا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ ملک کی مجموعی سکیورٹی صورتحال خاص کر چینی انجینیئرز پر حملوں کے باعث ایئرپورٹ کی تعمیر میں تاخیر ہوئی ہے۔ یاد رہے کہ چین نے بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں ایئرپورٹ کی تعمیر سمیت دیگر بڑے منصوبوں کے لیے بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔
یاد ریے کہ بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال اور احتجاج گوادر کے نئے ایئرپورٹ کے افتتاح کے راستے میں کئی بار رکاوٹ بنے۔ ابتدا میں نئے ہوائی اڈے کا افتتاح 14 اگست 2024 کو ہونا تھا، تاہم 28 جولائی کو بلوچ یکہجتی کمیٹی نے گوادر میں احتجاجی دھرنا دیا جس نے پُرتشدد شکل اختیار کر لی اور یہ احتجاج کئی روز تک جاری رہا جس کی وجہ سے افتتاح ممکن نہیں ہو سکا۔ پھر 25 اگست کو بیلہ میں ایف سی کے کیمپ پر خودکش حملے سمیت صوبے میں 13 مقامات پر دہشت گرد کارروائی کی گئی جس کی ذمہ داری کالعدم جماعت بی ایل اے نے قبول کی۔ امن امان کی صورتحال کے باعث اکتوبر میں چینی وزیر اعظم لی چیانگ نے اسلام آباد سے گوادر ایئرپورٹ کا ورچوئل افتتاح کیا تھا۔
حکومت پاکستان نے جنوری کے پہلے ہفتے میں ایئرپورٹ کو فعال کرنے کا اعلان کیا تھا اور کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم کو بتایا گیا تھا کہ 10 جنوری کو ایئرپورٹ سے پہلی پرواز مسقط کے لیے روانہ ہو گی تاہم اس پر بھی عملدرآمد نہیں ہو سکا تھا۔ بالاخر 20 جنوری 2025 کو پہلی اے ٹی آر پرواز نے گوادر ائیرپورٹ پر لینڈ کیا جو پہلے پرانے ایئرپورٹ پر لینڈ کرتی تھی۔
چنانچہ ناقدین کی جانب سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ اتنی خطیر رقم سے تیار ہونے والے گوادر ایئرپورٹ کو فعال کرنے کا منصوبہ کس حد تک کامیاب ہو پائے گا۔ انکا کہنا ہے کہ سال 2007 میں 250 ملین ڈالرز کی خطیر لاگت سے تعمیر ہونے والی گوادر کی بندرگاہ 15 برس بعد بھی سمندر کے ذریعے پاکستان کی تجارت کے ایک فیصد سے بھی کم کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔
یاد ریے کہ چین کی فنڈنگ سے تعمیر ہونے والا گوادر پورٹ بلوچستان میں بحیرہ عرب کے گرم پانیوں پر واقع ہے۔ گوادر کی بندرگاہ کو 2013 سے چین کی اوور سیز پورٹس ہولڈنگ کمپنی چلاتی ہے۔ تاہم گوادر شہر کے اندر اور اس کے ارد گرد انفرا اسٹرکچر کی تعمیر پر اضافی ایک ارب ڈالر خرچ کرنے کے باوجو د پاکستان کی بحری امور کی وزارت کی مالی سال 2022۔2023 کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گوادر کی بندرگاہ سمندر کے ذریعے پاکستان کی تجارت کے ایک فیصد سے بھی کم کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
اب گوادر ایئرپورٹ کے حوالے سے بھی انہی خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ گوادر ائیر پورٹ پر تجارتی سرگرمیوں کو بڑھانے کے لیے وہاں رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا ائیرپورٹ بنایا گیا ہے۔ ایوی ایشن ویب سائٹ اسکائی سکینر میں اس بڑے ائیر پورٹ سے ہفتے میں تین پروازیں کراچی اور ایک بین الاقوامی پرواز عمان کے لئے دکھائی گئی ہے۔ یاد رہے کہ بلوچستان جہاں گوادر واقع ہے، دو عشروں سے علیحدگی پسندوں کی شورش کی لپیٹ میں ہے اور حالیہ مہینوں میں وہاں تشدد میں اضافہ ہو گیا ہے۔
نیشنل پارٹی کے سینیٹر جان بلیدی کا کہنا ہے کہ اس وقت گوادر ضلع میں چار ایئرپورٹس ہیں جن میں سے اوڑماڑہ، جیونی اور پسنی غیر فعال ہیں جبکہ اسی طرح بلوچستان کے دیگر ایئرپورٹ پنجگور، تربت، خضدار اور دالبندین بھی فعال نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس صورتحال میں ‘ہمیں یہ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ وہ کون سا کاروبار ہو گا یا ٹرانزٹ فلائٹس ہوں گی جن کے لیے لوگ گوادر آئیں گے اور پھر دنیا کے دوسرے ممالک کی طرف جائیں گے۔‘ ان کے مطابق اگر یہ ایئرپورٹ چین کے ساتھ سٹریٹیجک مقصد کے لیے استعمال ہو گا تو یہ الگ بات ہے باقی اس کے کسی کمرشل اور معاشی فائدے کے امکانات نظر نہیں آتے۔